سوال: قومی زندگی میں مشترکہ ثقافتی مظاہر کون کون سے ہیں؟
قومی زندگی میں مشترکہ ثقافتی اظہار
پاکستان کے چاروں صوبوں کی اپنی اپنی صوبائی زبانیں موجود ہیں۔مختلف صوبوں کے رہنے والوں کے رسم و رواج اور رہن سہن میں معمولی فرق بھی ہے۔ لیکن پاکستان کے ثقافتی ورثے کا نمایاں تشخص اسلامی تہذیب ہے۔اس نظام میں مساوات، بھائی چارے، اُخوت، عدل و انصاف، حق گوئی اور سچائی کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔اس نطام حیات نے علم و ادب، تعمیرات، خطاطی اور لسانیات کو متاثر کیا۔ان کے حوالے سے ہمیں جانا اور پہچانا جاتا ہے۔اسلام نے پاکستان کے عوام کو اُخوت کے ایک رشتے میں پرودیا ہے۔ اسی لئے قومی زندگی میں مشترکہ ثقافتی اظہار حسب ِ ذیل ہے۔
(۱) ملی جلی ثقافت
پاکستان میں ملی جلی ثقافت پائی جاتی ہے اور اپنے اسی ڈھانچے کی بنیاد پر یہ بہت اہم ہے۔ہر خطے کے لوگ اپنے اطراف کے ماحول سے متاثر ہوتے ہیں۔ماحول کے اثرات ان کے لباس، غذا اور طرزِ زندگی سے ظاہر ہوتے ہیں۔پاکستان میں لوگ مختلف خطوں سے آکر آباد ہوئے ہیں۔ان میں عرب، ایرانی، اور ترک وغیرہ شامل ہیں۔یہ سب لوگ اپنے اپنے خطوں کے رسوم و رواج کے پیروکار تھے۔ ان کے لباس، زبان اور ثقافت جُدا تھی۔اب یہ تمام ثقافتیں ایک دوسرے میں شامل ہوگئی ہیںاور اُنھوں نے مشترکہ پاکستانی ثقافت پیدا کردی ہے۔
(۲) مردوں اور خواتین کی حیثیت و مرتبہ
پاکستانی ثقافت میں مرد کو منفرد اور ممتار مرتبہ حاصل ہے۔مرد خاندان کا سربراہ ہے۔اُس کو برتری اور فوقیت حاصل ہے۔لیکن عورت کو بھی خاندان کا ایک اہم جزو تصور کیا جاتا ہے۔جو چار دیواری کے اندر خاندانی معاملات چلاتی ہے اور اس چار دیواری کے اندر اُسی کا حکم چلتا ہے۔خانہ داری اور بچوں کی پرورش اور نگہداشت کسی بھی خاندان میں عورت کی ذمہ داری ہے۔نیز یہ کہ اسلامی اصولوں کے تحت عورت کو تعلیم کا حق، ملکیت کا حق اور تجارت کا حق حاصل ہے۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں خواتین و مردوں کے حقوق و فرائض کا تعین کیا گیا ہے اور پاکستان کے چاروں صوبوں میں ان اصولوں کی پیروی کی جاتی ہے اور اس طرح پاکستان کا مشترکہ ثقافتی ورثہ تشکیل پاتا ہے۔
(۳) معاشرتی زندگی
پاکستان میں معاشرتی زندگی بہت سادہ ہے۔لوگ قدیم روایات پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کے رسوم و رواج سادہ اور دلچسپ ہیں۔مشترکہ خاندانی نظام اختیار کیا جاتا ہے۔لوگوں کو بڑوں کی عزت کرنا اور بچوں سے پیار کرنا سکھایا جاتا ہے۔لوگ ایک دوسرے سے پیار و محبت اور احترام کے رشتے سے جڑے ہوئے ہیں۔خواتین کا احترام اور ان کی عزت کی جاتی ہے۔لوگوں کی اکثریت دیہات میں رہتی ہے اور زراعت اور مویشی پالنے سے منسلک ہیں۔شادیاں روایتی طریقوں سے منائی جاتی ہیں۔شہر میں بہت رنگینی اور حسن ہوتا ہے۔شادیوں پر کثیر رقم خرچ کی جاتی ہے۔شہروں میں بہت سے افراد قومی معیشت کے مختلف شعبوں میں ملازمت بھی کرتے ہیں۔اسی لئے پاکستان کے تمام حصوں میں معاشرتی زندگی تقریباً یکساں ہے۔ تاہم چندتہواروں اور مواقع کو منانے میں آب و ہوا اور ماحولیاتی حالات کے زیر ِاثر تھوڑا بہت فرق آجاتا ہے۔
(۴) غذا (خوراک)
پاکستان کے عوام کی اکثریت سادہ غذا کھاتی ہے۔یہ لوگ گندم کی روٹی، گوشت، دالیں اور سبزیاں کھاتے ہیں۔اور چائے، سادہ پانی یا مشروبات پیتے ہیں۔یہاں مقامی اور ملک کے دوسرے علاقوں کے پھل بھی کھائے جاتے ہیں۔ اسی لئے خوراک کی عادات بھی ہر صوبے میں تقریباً مشترک ہیں۔
(۵) تفریحات
ہماری تفریحات اور فارغ اوقات کے مشاغل ملتے جلتے ہیں۔کھیلوں میں ہاکی، کرکٹ، اسکوائش، کبڈی اور کشُتی پورے ملک میں یکساں طور پر مقبول ہیں۔تمام لوگ ان کھیلوں میں دلچسی لیتے ہیں اور اسی لئے یہ ہمارے قومی کھیل بن گئے ہیں۔ یہ کھیل ہمارے مشترکہ اور مماثل ثقافت کے عکاس ہیں۔
(۶) مذہبی تفریحات (تہوار)
مشترکہ اور مماثل ثقافتی ورثے کا مشاہدہ ہماری مذہبی تہواروںمیں بھی کیا جاسکتا ہے۔شادی ایک مقدس اور پاکیزہ مذہبی فریضہ ہے اور اسی لئے یہ اسلامی روایات اور رنگ کی عکاس ہے۔شادی کے موقع پر لوگ رنگین لباس پہنتے ہیں۔ دلنشین اور میٹھے گیت گاتے ہیں، تحفے تحائف لیتے اور دیتے ہیں اور لذیز کھانوں پر لوگوں کی دعوتیں کرتے ہیں۔شادی کے موقع پرگھروں کو رنگین روشنیوں سے سجایا جاتا ہے۔شادی خوشی، مسرت اور ہلہّ گلّہ کا ذریعہ بنتی ہے۔اس سے بھی ہمارے مشترکہ اور مماثل ثقافتی ورثے کا اظہار ہوتا ہے۔ اسی طرح پیدائش و موت کے چند رسوم و رواج ہیں۔ بچے کی پیدائش اور خاص طور پر لڑکے کی پیدائش پر خوشیاں منائی جاتی ہیں۔ ایک دوسرے کو تحفے تحائف دیے جاتے ہیں۔ کسی شخص کے انتقال پر لوگ غم ذدہ خاندان کے ساتھ دکھ و غم میںشریک ہوتے ہیں۔ اس موقع پر ہمسائے، اعزّہ و اقرباءاور احباب غم زدہ خاندان کے لئے کھانے کاانتظام کرتے ہیں۔ اس طرح لوگ ایک دوسرے کے ساتھ اخوت و محبت کے جذبات اُبھارتے ہیں۔ اسی طرح عیدلفطر اور عید الاضحی ہمارے مذہبی تہوارہیں۔ جنہیں جوش و جذبےسے منایا جاتا ہے۔ لوگ نئے لباس پہنتے ہیںاور مختلف قسم کے لذیز پکوان پکاتے ہیں۔ ان تمام مواقع پر اخوت و محبت کے عظیم جذبات کااظہار کیا جاتا ہے۔
(۷) اُخوت و محبت کا ایک ہی پیغام
ہمارے ثقافتی ورثے کا اظہار ہمارے مذہبی ادب (لٹریچر) اور اقدار سے ظاہر کیا جاتا ہے۔اُخوت و محبت کا ایک ہی پیغام ہے جو ہمارے صوفیوں نے مختلف زبانوں میں پہنچایا ہے۔مختلف ادیبوں نے مختلف زبانوں میں ادب تخلیق کیا ہے وہ امن، انسانیت، تصوف، عدل و انصاف، محبت کا پیغام اور درس دیتا ہے۔شاہ عبدالطیف بھٹائی اور سچل سرمست نے سندھ بھر میں؛ سلطان باہو، بلھے شاہ، اور وارث شاہ نے پنجاب میں؛ رحمان بابااور خوشحال خٹک نے سرحد میں اورگل خان نصیر نے بلوچستان میں ہمیں محبت اور اُخوت کا ایک جیسا درس دیا ہے۔
(۸) ذرائع ابلاغ
ریڈیو، ٹیلی ویژن، اخبارات و رسائل اور ذرائع آمدورفت کے ذریعے سے قومی ہم آہنگی، ربط اور مشترکہ قومی ثقافت نشونما پارہی ہے۔
(۹) نظام تعلیم
قومی سطح پر اختیار کیے جانے والے تعلیمی نظام کی وساطت سے قومی ثقافت کی نشونما ہوتی ہے اور یہ پروان چڑھتی ہے۔ہمارے تعلیمی نظام کی یکسانیت اور پڑھائے جانے والے مضامین، نگرانی کا نظام اور طریقہ امتحان و جانچ سے قومی جذبہ و روح بیدار کرنے میں مدد ملتی ہے اور بچوں کے درمیان مشترکہ ثقافتی اقدار کو فروغ ملتا ہے اور نئی نسل کا ثقافتی ورثے سے لگاو پیدا ہوتا ہے۔
قومی زندگی میں مشترکہ ثقافتی اظہار
پاکستان کے چاروں صوبوں کی اپنی اپنی صوبائی زبانیں موجود ہیں۔مختلف صوبوں کے رہنے والوں کے رسم و رواج اور رہن سہن میں معمولی فرق بھی ہے۔ لیکن پاکستان کے ثقافتی ورثے کا نمایاں تشخص اسلامی تہذیب ہے۔اس نظام میں مساوات، بھائی چارے، اُخوت، عدل و انصاف، حق گوئی اور سچائی کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔اس نطام حیات نے علم و ادب، تعمیرات، خطاطی اور لسانیات کو متاثر کیا۔ان کے حوالے سے ہمیں جانا اور پہچانا جاتا ہے۔اسلام نے پاکستان کے عوام کو اُخوت کے ایک رشتے میں پرودیا ہے۔ اسی لئے قومی زندگی میں مشترکہ ثقافتی اظہار حسب ِ ذیل ہے۔
(۱) ملی جلی ثقافت
پاکستان میں ملی جلی ثقافت پائی جاتی ہے اور اپنے اسی ڈھانچے کی بنیاد پر یہ بہت اہم ہے۔ہر خطے کے لوگ اپنے اطراف کے ماحول سے متاثر ہوتے ہیں۔ماحول کے اثرات ان کے لباس، غذا اور طرزِ زندگی سے ظاہر ہوتے ہیں۔پاکستان میں لوگ مختلف خطوں سے آکر آباد ہوئے ہیں۔ان میں عرب، ایرانی، اور ترک وغیرہ شامل ہیں۔یہ سب لوگ اپنے اپنے خطوں کے رسوم و رواج کے پیروکار تھے۔ ان کے لباس، زبان اور ثقافت جُدا تھی۔اب یہ تمام ثقافتیں ایک دوسرے میں شامل ہوگئی ہیںاور اُنھوں نے مشترکہ پاکستانی ثقافت پیدا کردی ہے۔
(۲) مردوں اور خواتین کی حیثیت و مرتبہ
پاکستانی ثقافت میں مرد کو منفرد اور ممتار مرتبہ حاصل ہے۔مرد خاندان کا سربراہ ہے۔اُس کو برتری اور فوقیت حاصل ہے۔لیکن عورت کو بھی خاندان کا ایک اہم جزو تصور کیا جاتا ہے۔جو چار دیواری کے اندر خاندانی معاملات چلاتی ہے اور اس چار دیواری کے اندر اُسی کا حکم چلتا ہے۔خانہ داری اور بچوں کی پرورش اور نگہداشت کسی بھی خاندان میں عورت کی ذمہ داری ہے۔نیز یہ کہ اسلامی اصولوں کے تحت عورت کو تعلیم کا حق، ملکیت کا حق اور تجارت کا حق حاصل ہے۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں خواتین و مردوں کے حقوق و فرائض کا تعین کیا گیا ہے اور پاکستان کے چاروں صوبوں میں ان اصولوں کی پیروی کی جاتی ہے اور اس طرح پاکستان کا مشترکہ ثقافتی ورثہ تشکیل پاتا ہے۔
(۳) معاشرتی زندگی
پاکستان میں معاشرتی زندگی بہت سادہ ہے۔لوگ قدیم روایات پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کے رسوم و رواج سادہ اور دلچسپ ہیں۔مشترکہ خاندانی نظام اختیار کیا جاتا ہے۔لوگوں کو بڑوں کی عزت کرنا اور بچوں سے پیار کرنا سکھایا جاتا ہے۔لوگ ایک دوسرے سے پیار و محبت اور احترام کے رشتے سے جڑے ہوئے ہیں۔خواتین کا احترام اور ان کی عزت کی جاتی ہے۔لوگوں کی اکثریت دیہات میں رہتی ہے اور زراعت اور مویشی پالنے سے منسلک ہیں۔شادیاں روایتی طریقوں سے منائی جاتی ہیں۔شہر میں بہت رنگینی اور حسن ہوتا ہے۔شادیوں پر کثیر رقم خرچ کی جاتی ہے۔شہروں میں بہت سے افراد قومی معیشت کے مختلف شعبوں میں ملازمت بھی کرتے ہیں۔اسی لئے پاکستان کے تمام حصوں میں معاشرتی زندگی تقریباً یکساں ہے۔ تاہم چندتہواروں اور مواقع کو منانے میں آب و ہوا اور ماحولیاتی حالات کے زیر ِاثر تھوڑا بہت فرق آجاتا ہے۔
(۴) غذا (خوراک)
پاکستان کے عوام کی اکثریت سادہ غذا کھاتی ہے۔یہ لوگ گندم کی روٹی، گوشت، دالیں اور سبزیاں کھاتے ہیں۔اور چائے، سادہ پانی یا مشروبات پیتے ہیں۔یہاں مقامی اور ملک کے دوسرے علاقوں کے پھل بھی کھائے جاتے ہیں۔ اسی لئے خوراک کی عادات بھی ہر صوبے میں تقریباً مشترک ہیں۔
(۵) تفریحات
ہماری تفریحات اور فارغ اوقات کے مشاغل ملتے جلتے ہیں۔کھیلوں میں ہاکی، کرکٹ، اسکوائش، کبڈی اور کشُتی پورے ملک میں یکساں طور پر مقبول ہیں۔تمام لوگ ان کھیلوں میں دلچسی لیتے ہیں اور اسی لئے یہ ہمارے قومی کھیل بن گئے ہیں۔ یہ کھیل ہمارے مشترکہ اور مماثل ثقافت کے عکاس ہیں۔
(۶) مذہبی تفریحات (تہوار)
مشترکہ اور مماثل ثقافتی ورثے کا مشاہدہ ہماری مذہبی تہواروںمیں بھی کیا جاسکتا ہے۔شادی ایک مقدس اور پاکیزہ مذہبی فریضہ ہے اور اسی لئے یہ اسلامی روایات اور رنگ کی عکاس ہے۔شادی کے موقع پر لوگ رنگین لباس پہنتے ہیں۔ دلنشین اور میٹھے گیت گاتے ہیں، تحفے تحائف لیتے اور دیتے ہیں اور لذیز کھانوں پر لوگوں کی دعوتیں کرتے ہیں۔شادی کے موقع پرگھروں کو رنگین روشنیوں سے سجایا جاتا ہے۔شادی خوشی، مسرت اور ہلہّ گلّہ کا ذریعہ بنتی ہے۔اس سے بھی ہمارے مشترکہ اور مماثل ثقافتی ورثے کا اظہار ہوتا ہے۔ اسی طرح پیدائش و موت کے چند رسوم و رواج ہیں۔ بچے کی پیدائش اور خاص طور پر لڑکے کی پیدائش پر خوشیاں منائی جاتی ہیں۔ ایک دوسرے کو تحفے تحائف دیے جاتے ہیں۔ کسی شخص کے انتقال پر لوگ غم ذدہ خاندان کے ساتھ دکھ و غم میںشریک ہوتے ہیں۔ اس موقع پر ہمسائے، اعزّہ و اقرباءاور احباب غم زدہ خاندان کے لئے کھانے کاانتظام کرتے ہیں۔ اس طرح لوگ ایک دوسرے کے ساتھ اخوت و محبت کے جذبات اُبھارتے ہیں۔ اسی طرح عیدلفطر اور عید الاضحی ہمارے مذہبی تہوارہیں۔ جنہیں جوش و جذبےسے منایا جاتا ہے۔ لوگ نئے لباس پہنتے ہیںاور مختلف قسم کے لذیز پکوان پکاتے ہیں۔ ان تمام مواقع پر اخوت و محبت کے عظیم جذبات کااظہار کیا جاتا ہے۔
(۷) اُخوت و محبت کا ایک ہی پیغام
ہمارے ثقافتی ورثے کا اظہار ہمارے مذہبی ادب (لٹریچر) اور اقدار سے ظاہر کیا جاتا ہے۔اُخوت و محبت کا ایک ہی پیغام ہے جو ہمارے صوفیوں نے مختلف زبانوں میں پہنچایا ہے۔مختلف ادیبوں نے مختلف زبانوں میں ادب تخلیق کیا ہے وہ امن، انسانیت، تصوف، عدل و انصاف، محبت کا پیغام اور درس دیتا ہے۔شاہ عبدالطیف بھٹائی اور سچل سرمست نے سندھ بھر میں؛ سلطان باہو، بلھے شاہ، اور وارث شاہ نے پنجاب میں؛ رحمان بابااور خوشحال خٹک نے سرحد میں اورگل خان نصیر نے بلوچستان میں ہمیں محبت اور اُخوت کا ایک جیسا درس دیا ہے۔
(۸) ذرائع ابلاغ
ریڈیو، ٹیلی ویژن، اخبارات و رسائل اور ذرائع آمدورفت کے ذریعے سے قومی ہم آہنگی، ربط اور مشترکہ قومی ثقافت نشونما پارہی ہے۔
(۹) نظام تعلیم
قومی سطح پر اختیار کیے جانے والے تعلیمی نظام کی وساطت سے قومی ثقافت کی نشونما ہوتی ہے اور یہ پروان چڑھتی ہے۔ہمارے تعلیمی نظام کی یکسانیت اور پڑھائے جانے والے مضامین، نگرانی کا نظام اور طریقہ امتحان و جانچ سے قومی جذبہ و روح بیدار کرنے میں مدد ملتی ہے اور بچوں کے درمیان مشترکہ ثقافتی اقدار کو فروغ ملتا ہے اور نئی نسل کا ثقافتی ورثے سے لگاو پیدا ہوتا ہے۔
0 comments:
Post a Comment