سوال: پاکستان کی قومی زبان پر نوٹ لکھیں؟
پاکستان میں 30 سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں۔ہمارے ملک کی بڑی صوبائی زبانیں سندھی، پنجابی، پشتو اور بلوچی ہے۔یہ زبانیں زیادہ تر اپنے اپنے علاقوں کی نمائندگی کرتی ہیں اور انھیں صوبائی زبانیں کہا جاتا ہے۔ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے جو لب و لہجے کے معمولی فرق کے ساتھ پاکستان کے تمام علاقوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔
اردو
اردو ہمارے ثقافتی ورثے کا حصّہ ہے۔ اب سے تقریباً تین ہزار سال قبل لوگ وسط ایشیاءسے آکر جنوبی ایشیاءکے شمالی حصّے میں آباد ہوگئے تھے۔جیسے ہی ان کی تعداد میں اضافہ ہوا انھوں نے رفتہ رفتہ یہاں کے قدیم باشندوں کو جنوب کی جانب دھکیل دیا اور یہ لوگ سنسکرت سے بگڑی ہوئی زبان پراکرت بولتے تھے جو عام لوگوں کی زبان کہلانے لگی۔ تقریباً پندرہ سو سال تک عام لوگ پراکرت بولتے رہے۔راجہ بکرماجیت نے سرکاری اور ادبی کاموں کے لئے ایک بار پھر
سنسکر ت زبان رائج کردی۔ لیکن عوام کی زبان پر پراکرت ہی رہی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پراکرت زبان نے چار منفرد اور نمایاں شکلیں اختیار کرلیں اور ان ہی مقامی شکلوں میں سے ایک شکل ”برج بھاشا“ کہلائی۔یہ زبان دریائے گنگا اور جمنا کے درمیان اور ان کے اطراف کے علاقوں میں بولی جاتی تھی۔
مسلمانوں کے مختلف خاندانوں نے برّ صغیر جنوبی ایشیاءپر حکومت کی۔پہلے یہاں مسلمانوں کی اور پھر مغلوں کی حکومت قائم ہوئی۔ان لوگوں کی زبان فارسی تھی۔
مغلوں کے دورِ حکومت میں کئی یورپی اقوام جنوبی ایشیاءمیں کسی نہ کسی مقصد سے آئیں۔اس طرح کچھ فرانسیسی اور پرتگالی الفاظ بھی برج بھاشا میں شامل ہوگئے اور یوں شاہ جہاں (1627ءتا 1658ئ)کے عہد میں برج بھاشا داخلی طور پر بدل گئی اور یہ ایک نئی زبان معلوم ہونے لگی۔اس نئی زبان کو ہندو اور مسلمان سمجھ اور بول سکتے تھے اور چونکہ مغل بادشاہوں کی فوج میں ہر قوم و مذہب کے سپاہی ہوتے تھے۔اس لئے یہ فوجیوں کے لشکر کی زبان بن گئی۔فوجی لشکر کو ترکی زبان میں اُوردو کہتے ہیں۔لہٰذا لشکر میں بولی جانے والی زبان کا نام ”اُوردو“ پڑگیا۔ اُوردو کا لفظ خود منگولی زبان کے لفظ اُوردو ( یعنی پڑاو یا لشکر) سے ماخوذ ہے۔فارسی زبان کے زیرِ اثر لفظ ”اُوردو“ زیادہ ملائم ہوکر ”اُردو“ ہوگیا۔اس زبان کا شکوہ اور شان و شوکت ترکی الفاظ کی مرہون منت ہے اور اس کی مٹھاس اور شیریں بیانی اور دلکشی فارسی الفاظ کے طفیل ہے۔عربی کے وہ الفاظ جو ترکی اور فارسی نے مستعار کئے ہوئے ہیں وہ بھی اس نئی زبان اُردو نے اختیار کرلئے۔
مغل بادشاہوں کے آخری دو سو سال ( 1658 ءتا 1857ئ) میں علماءدین، اہل علم و دانشور اور شعراءنے اُردو زبان کو اظہار خیال کا ذریعہ بنایا۔اُس وقت دوسری زبان فارسی تھی۔اس طرح اس زبان کی ترقی اور توسیع ترویج کو مہمیز مل گئی۔اردو زبان کی شناخت کچھ ایسی ہے کہ دوسری زبانوں کے الفاظ اس میں شامل ہوکر اجنبی معلوم نہیں ہوتے بلکہ مستعمل ہونے پر اسی زبان کا جز معلوم ہونے لگتے ہیں۔
اُردو نے تحریکِ پاکستان کو فروغ دینے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔یہ پاکستان کے تمام صوبوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے اور قومی اتحاد کی علامت ہے۔مقامی زبانوں کے بے شمار الفاظ اب اردو زبان میں اپنی جگہ بنارہے ہیں۔اردو نے خود مقامی زبانوں کو بہت متاثر کیا ہے اور اس کے الفاظ اب بڑی بے تکلفی سے سندھی اور پنجابی زبان کی روز مرّہ گفتگو میں استعمال ہوتے ہیں۔
اردو نے پاکستان میں بہت ترقی کی ہے اور فروغ پایا ہے۔اردو ادب میں نظم کا بیش قیمت ذخیرہ موجود ہے۔ہمارے ادیبوں اور شاعروں نے اپنی کاوشوں سے اسے مالا مال کردیا ہے اور پاکستان کے عوام الناس میں اس کو مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔اُردو ڈراموں، اُردو فیچر فلموں اور اُردو میں میٹھے اور شیریں نغموں نے ان کے مطالب اور مفہوم کو سمجھنا آسان کردیا ہے۔اردو ذریعہ تعلیم بھی ہے اور امتحان کا ذریعہ بھی۔جدید علوم اور مضامین کا اُردو میں ترجمہ کیا جارہا ہے۔اُردو زبان کی ترقی کے لئے وفاقی سطح کے دو کالج یعنی اُردو سائنس کالج اور اُردو آرٹس کالج کراچی میں قائم کئے گئے ہیں۔جنہیں اب اُردو یونیورسٹی کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ حکومت نے ایک ادارہ ” مقتدرہ قومی زبان“ کے نام سے اسلام آباد میں قائم کیا ہے۔جس کا مقصد و مدعا اردو زبان کی ترقی وترویج ہے۔
پاکستان میں 30 سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں۔ہمارے ملک کی بڑی صوبائی زبانیں سندھی، پنجابی، پشتو اور بلوچی ہے۔یہ زبانیں زیادہ تر اپنے اپنے علاقوں کی نمائندگی کرتی ہیں اور انھیں صوبائی زبانیں کہا جاتا ہے۔ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے جو لب و لہجے کے معمولی فرق کے ساتھ پاکستان کے تمام علاقوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔
اردو
اردو ہمارے ثقافتی ورثے کا حصّہ ہے۔ اب سے تقریباً تین ہزار سال قبل لوگ وسط ایشیاءسے آکر جنوبی ایشیاءکے شمالی حصّے میں آباد ہوگئے تھے۔جیسے ہی ان کی تعداد میں اضافہ ہوا انھوں نے رفتہ رفتہ یہاں کے قدیم باشندوں کو جنوب کی جانب دھکیل دیا اور یہ لوگ سنسکرت سے بگڑی ہوئی زبان پراکرت بولتے تھے جو عام لوگوں کی زبان کہلانے لگی۔ تقریباً پندرہ سو سال تک عام لوگ پراکرت بولتے رہے۔راجہ بکرماجیت نے سرکاری اور ادبی کاموں کے لئے ایک بار پھر
سنسکر ت زبان رائج کردی۔ لیکن عوام کی زبان پر پراکرت ہی رہی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پراکرت زبان نے چار منفرد اور نمایاں شکلیں اختیار کرلیں اور ان ہی مقامی شکلوں میں سے ایک شکل ”برج بھاشا“ کہلائی۔یہ زبان دریائے گنگا اور جمنا کے درمیان اور ان کے اطراف کے علاقوں میں بولی جاتی تھی۔
مسلمانوں کے مختلف خاندانوں نے برّ صغیر جنوبی ایشیاءپر حکومت کی۔پہلے یہاں مسلمانوں کی اور پھر مغلوں کی حکومت قائم ہوئی۔ان لوگوں کی زبان فارسی تھی۔
مغلوں کے دورِ حکومت میں کئی یورپی اقوام جنوبی ایشیاءمیں کسی نہ کسی مقصد سے آئیں۔اس طرح کچھ فرانسیسی اور پرتگالی الفاظ بھی برج بھاشا میں شامل ہوگئے اور یوں شاہ جہاں (1627ءتا 1658ئ)کے عہد میں برج بھاشا داخلی طور پر بدل گئی اور یہ ایک نئی زبان معلوم ہونے لگی۔اس نئی زبان کو ہندو اور مسلمان سمجھ اور بول سکتے تھے اور چونکہ مغل بادشاہوں کی فوج میں ہر قوم و مذہب کے سپاہی ہوتے تھے۔اس لئے یہ فوجیوں کے لشکر کی زبان بن گئی۔فوجی لشکر کو ترکی زبان میں اُوردو کہتے ہیں۔لہٰذا لشکر میں بولی جانے والی زبان کا نام ”اُوردو“ پڑگیا۔ اُوردو کا لفظ خود منگولی زبان کے لفظ اُوردو ( یعنی پڑاو یا لشکر) سے ماخوذ ہے۔فارسی زبان کے زیرِ اثر لفظ ”اُوردو“ زیادہ ملائم ہوکر ”اُردو“ ہوگیا۔اس زبان کا شکوہ اور شان و شوکت ترکی الفاظ کی مرہون منت ہے اور اس کی مٹھاس اور شیریں بیانی اور دلکشی فارسی الفاظ کے طفیل ہے۔عربی کے وہ الفاظ جو ترکی اور فارسی نے مستعار کئے ہوئے ہیں وہ بھی اس نئی زبان اُردو نے اختیار کرلئے۔
مغل بادشاہوں کے آخری دو سو سال ( 1658 ءتا 1857ئ) میں علماءدین، اہل علم و دانشور اور شعراءنے اُردو زبان کو اظہار خیال کا ذریعہ بنایا۔اُس وقت دوسری زبان فارسی تھی۔اس طرح اس زبان کی ترقی اور توسیع ترویج کو مہمیز مل گئی۔اردو زبان کی شناخت کچھ ایسی ہے کہ دوسری زبانوں کے الفاظ اس میں شامل ہوکر اجنبی معلوم نہیں ہوتے بلکہ مستعمل ہونے پر اسی زبان کا جز معلوم ہونے لگتے ہیں۔
اُردو نے تحریکِ پاکستان کو فروغ دینے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔یہ پاکستان کے تمام صوبوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے اور قومی اتحاد کی علامت ہے۔مقامی زبانوں کے بے شمار الفاظ اب اردو زبان میں اپنی جگہ بنارہے ہیں۔اردو نے خود مقامی زبانوں کو بہت متاثر کیا ہے اور اس کے الفاظ اب بڑی بے تکلفی سے سندھی اور پنجابی زبان کی روز مرّہ گفتگو میں استعمال ہوتے ہیں۔
اردو نے پاکستان میں بہت ترقی کی ہے اور فروغ پایا ہے۔اردو ادب میں نظم کا بیش قیمت ذخیرہ موجود ہے۔ہمارے ادیبوں اور شاعروں نے اپنی کاوشوں سے اسے مالا مال کردیا ہے اور پاکستان کے عوام الناس میں اس کو مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔اُردو ڈراموں، اُردو فیچر فلموں اور اُردو میں میٹھے اور شیریں نغموں نے ان کے مطالب اور مفہوم کو سمجھنا آسان کردیا ہے۔اردو ذریعہ تعلیم بھی ہے اور امتحان کا ذریعہ بھی۔جدید علوم اور مضامین کا اُردو میں ترجمہ کیا جارہا ہے۔اُردو زبان کی ترقی کے لئے وفاقی سطح کے دو کالج یعنی اُردو سائنس کالج اور اُردو آرٹس کالج کراچی میں قائم کئے گئے ہیں۔جنہیں اب اُردو یونیورسٹی کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ حکومت نے ایک ادارہ ” مقتدرہ قومی زبان“ کے نام سے اسلام آباد میں قائم کیا ہے۔جس کا مقصد و مدعا اردو زبان کی ترقی وترویج ہے۔
1 comments:
ڄناب صدر صاحب تے گورنر کھوسہ صاحب!
١۔اسلام آباد تے کراچی وچ اردو یونی ورسٹی ھے پئی۔ہک سرائیکی میڈیم :سرائیکی یونیورسٹی برائے صحت انجینئرنگ تے سائنس آرٹس ٻݨاؤ جیندے کیمپس ہر وݙے شہر وچ ھوون۔.
۔٢.۔ تعلیمی پالسی ڈو ھزار نو دے مطابق علاقائی زباناں لازمی مضمون ھوسن تے ذریعہ تعلیم وی ھوسن۔ سرائیکی بارے عمل کرتے سرائیکی کوں سکولاں کالجاں وچ لازمی کیتا ونڄے تے ذریعہ تعلیم تے ذریعہ امتحان بݨاؤ۔.
٣۔سرائیکی کوں قومی زبان دا درجہ ڈیوو.۔.
۔٤۔ نادرا سندھی اردو تے انگریزی وچ شناختی کارݙ جاری کریندے۔ سرائیکی وچ وی قومی شناختی کارڈ جاری کرے۔.
۔٥۔ ھر ھر قومی اخبار سرائیکی سندھی تے اردو وچ شائع کیتا ونڄے۔کاغذ تے اشتہارات دا کوٹہ وی برابر ݙتا ونڄے۔.
۔٦۔ پاکستان دے ہر سرکاری تے نجی ٹی وی چینل تے سرائیکی، سندھی، پشتو ، پنجابی،بلوچی تے اردو کوں ہر روز چار چار گھنٹے ݙتے ونڄن۔.
۔٧۔سب نیشنل تے ملٹی نیشنل کمپنیاں سرائیکی زبان کوں تسلیم کرن تے ہر قسم دی تحریر تے تشہیر سرائیکی وچ وی کرن۔.
۔٨۔۔سرائیکی ہر ملک وچ وسدن ایں سانگے سرائیکی ہک انٹر نیشنل زبان اے۔ سکولاں وچ عربی لازمی کائنی ، تاں ول انگریزی تے اردو دے لازمی ھووݨ دا کیا ڄواز اے؟.
Post a Comment