This is default featured post 1 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured post 2 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured post 3 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured post 4 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured post 5 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

Friday, 11 March 2011

سوال: قراداد ِمقاصد کے اہم خدوخال بیان کریں؟

سوال: قراداد ِمقاصد کے اہم خدوخال بیان کریں؟ قرادادِ مقاصد 1949
پاکستان کی آئینی ارتقاءکی تاریخ میں قراداد ِمقاصد ایک انتہائی اہم دستاویز ہے اوراسے آئین سازی میں بنیادی قدم قرار دےا جاسکتاہے۔اسے 12 مارچ 1949کو منظور کیا گیا۔ اس قراداد میں اسلام کو پاکستان کی اساس قرار دیا گیا ہے۔
قراداد ِمقاصدکے نمایاں خدوخال یہ ہیں۔
(۱) مقتدراعلیٰ اللہ تعالیٰ ہے
اس قرارداد میں اس بات کی وضاحت کردی گئی ہے کہ ساری کائنات کا مالک اور مقتدراعلیٰ صرف اللہ تعالیٰ ہے۔اقتدار مسلمانوں کے پاس اللہ کی امانت ہے اور اس اقتدار کو اسلام کی مقررہ کردہ حدود کے اندر رہ کر عوام کے منتخب نمائندے استعمال کریں گے۔
(۲) اسلام کے اصول کا نفاذ
اسلام کے پیش کردہ جمہوریت، مساوات اور عدل اجتماعی (معاشرتی عدل) کے اصول اور تصورات ملک میں نافذ کئے جائیں گے۔
(۳) بہتر اور مناسب ماحول
مسلمانوں کو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی قرآن مجید اور سنت نبوی میں پیش کردہ اصولوں کے مطابق گزارنے کے لئے بہتر اورمناسب ماحول فراہم کیا جائے گا۔
(۴) اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ
تمام اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا ان کو اپنے مذاہب کی پیروی کرنے اور اپنی ثقافت کو فروغ دینے کے لئے پوری آزادی ہوگی۔
(۵) صوبوں کو خودمختاری حاصل ہوگی
پاکستان ایک وفاقی ریاست ہوگا۔ آئین میں متعین کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے تمام صوبوں کو خودمختاری حاصل ہوگی۔
(۶) عدلیہ کی آزادی
عوام کے بنیادی حقوق اور عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنایا جائے گا۔

سوال: 1956 کے آئین کے امتیازی خووخال بیان کریں؟

سوال: 1956 کے آئین کے امتیازی خووخال بیان کریں؟ 1956کا آئین
جون 1955 میں دوسری دستور ساز اسمبلی منتخب ہوئی اور آئین سازی کا کام شروع ہوا اور ایک سال سے بھی کم عرصے میں ملک کا آئین تیار کیا گیا۔جو 23 مارچ 1956کو نافذ ہوا۔ 1956 کے آئین کے نمایاں خدوخال
(۱) اس آئین کے ابتدائیہ میں یہ کہا گیا کہ حاکمیت اور اقتدار اعلیٰ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور پاکستان کو اسلامی جمہوریہ قرار دیا گیا۔
(۲) ملک میں وفاقی پارلیمانی نظام حکومت قائم کیا گیا۔
(۳) صدر نے گورنر جنرل کی جگہ لے لی۔
(۴) حکومت کے وفاقی نظام کے تحت مرکز اور پاکستان کے دونوں صوبوں یعنی سابقہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان برابری (Parity) کی بنےاد پر اختیارات کا تعین کیا گےا۔
(۵) اس بات کی ضمانت دی گئی کہ مسلمانوں کو اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کے تمام مواقع مہیا کئے جائیں گے۔
(۶) حکومت پاکستان دنیا کے تمام مسلم ممالک سے قریبی او ر دوستانہ تعلقات قائم کرے گی۔
(۷) سربراہ مملکت لازماً مسلمان ہوگا۔
(۸) کوئی ایسا قانون نافذ نہیں کیا جائے گا جو اسلامی اصولوں یعنی قرآن و سنت کے خلاف ہو؛ اگر ایسا کوئی قانون موجود ہوگا تو اس میں مناسب ترمیم کی جائے گی۔
(۹) صدر پاکستان ایک کمیشن تشکیل دیں گے جو تمام موجودہ قوانین کا جائزہ لے گا اور ان میں ضروری ترامیم کی سفارش کرے گا۔

سوال: مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے کیوں علیحدہ ہوا؟

سوال: مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے کیوں علیحدہ ہوا؟ مشرقی پاکستان کی علیحدگی
14 اگست 1947 کو پاکستان دو حصوں میں وجود میں آیا یعنی مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان۔ 1971 میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے وقت تک یہ ایک ہی ملک رہا۔ مشرقی پاکستان کے سقوط یا علیحدگی کے اسباب مندرجہ ذیل ہیں۔
(۱) مشرقی یا مغربی پاکستان کا جغرافیائی محل و قوع
پاکستان کے ان دونوں حصوں کے درمیان تقریباًسولہ سو کلو میڑ کا فاصلہ تھا اور درمیان میں بھارت اور سمندر حائل تھے اسی لئے دونوں حصوں کے عوام ایک دوسرے کے زیادہ قریب نہیں آسکے۔جس کے سبب مشرقی اور مغربی پاکستان کے عوام کے درمیان غلط فہمیاں پیدا ہوگئیں۔ بھارت نے کبھی بھی برصغیر کی تقسیم اور قیام پاکستان کو دل سے قبول نہیں کیاتھااس نے ان غلط فہمیوں کا فائدہ اٹھانا شروع کردیا اور مشرقی پاکستان کے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے اس نے مغربی پاکستان کے خلاف من گھڑت اور جھوٹا پروپیگنڈا شروع کردیا۔اس پروپیگنڈا نے دونوں صوبوں کے عوام میں بداعتمادی پیدا کردی جس سے شدید نقصان پہنچا۔
(۲) معاشرتی اور سماجی ڈھانچے میں فرق
دونوں صوبوں کے عوام کے مسائل بہت مختلف تھے۔اس لئے ان کے مابین ایک دوسرے سے آگاہی پروان نہیں چڑھ سکی۔ مشرقی پاکستان کے افسران کا رویہ اپنے لوگوں کے ساتھ کافی دوستانہ تھا اور وہ عوام کے زیادہ قریب تھے۔انھوں نے اپنے عوام کے مسائل حل کرنے کی کوششیں کی۔اس کے مقابلے میں مغربی پاکستان کے وہ افسران جو مشرقی پاکستان میں تعینات کیے جاتے تھے، ان کا رویہ وہاں کے عوام کے ساتھ بالکل مختلف اور متکبّرانہ تھا۔وہ عوام سے فاصلہ کے اصول پر عمل کرتے تھے۔اس کی وجہ سے مغربی پاکستان کے خلاف نفرت کا احساس پیدا ہوگیا۔مشرقی پاکستان کے عوام یہ سمجھتے تھے کہ انھیں حکومت کے عمل و فعل اور نظم و نسق میں جائز اور حقیقی حصہ دار نہیں بنایا گیا ہے۔
(۳) مارشل لائ
بار بار ماشل لاءکے نفاذ نے بھی مشرقی پاکستان کے عوام میں احساس محرومی پیدا کردیا تھا۔جنرل محمد ایوب خان سیاستدانوں کو یہ الزام دیتے تھے کہ وہ پارلیمانی نظام حکومت کی ناکامی کے ذمہ دار ہیں جب کہ عوامی رہنما یہ یقین رکھتے تھے کہ پارلیمانی نظام حکومت کے قیام میں مارشل لاءسب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس طرح ملک میں جمہوریت پروان نہیں چڑھ سکے گی۔
(۴) زبان کا مسئلہ
سرکاری زبان کے مسئلے پر مشرقی پاکستان کے عوام کووفاقی حکومت کی پالیسی سے اختلاف تھا۔ اس مسئلہ پر حکومت کے خلاف مظاہرے ہوئے اور کئی بنگالی طلبہ کی جان قربان ہوگئی۔ اس سے بنگالیوں کے ذہنوں میں مزید اشتعال پیدا ہوا۔
(۵) صوبائی خودمختاری
مشرقی پاکستان مکمل صوبائی خودمختاری چاہتا تھا۔اس مطالبہ کواس وقت تک تسلیم نہیں کیا گیا جب تک بھارت نے 1971 میں مشرقی پاکستان پر حملہ نہیں کردیا۔اگر یہ مطالبہ پہلے تسلیم کرلیا جاتا تو شاید مشرقی پاکستان علیحدہ نہ ہوتا۔
(۶) معاشی اور اقتصادی محرومی اور پروپیگنڈہ
عوامی لیگ کے قائد شیخ مجیب الرحمن نے بنگال میں یہ پروپیگنڈہ اور تشہیر کرنا شروع کردیا کہ بنگالیوں کو معاشی اور اقتصادی طور پر محروم رکھا گیا ہے۔ عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کے لئے علیحدہ اقتصادی نظام کا مطالبہ کردیااور اپنا چھ نکاتی منشور پیش کیا۔ ملک کی دیگر جماعتوں نے شیخ مجیب الرحمن کی تجاویز کو رد کردیا ۔کہا جاتا ہے کہ اس نے بھارت کے ساتھ خفیہ تعلقات جوڑنے شروع کردئے تھے۔ آل انڈیا ریڈیو نے اپنے پروگراموں کے ذریعے بنگالیوں کے دلوں میں مغربی پاکستان کے عوام کے خلاف نفرت پیدا کرنا شروع کردی۔
(۷) ہندو اساتذہ کا کردار
مشرقی پاکستان کے تعلیمی اداروں میں ہندو اساتذہ کی ایک کثیر تعداد پڑھارہی تھی۔انھوں نے ایک منصوبے کے تحت ایسا ادب اور لٹریچر تیار کیا جس کی بدولت بنگالیوںکے ذہنوں میں مغربی پاکستان کے عوام کے خلاف منفی جذبات اور خیالات پروان چڑھنے لگے۔
(۸) بین الاقوامی سازشیں
مشرقی پاکستان میں تقریباًدس ملین ( ایک کڑوڑ) ہندو اقلیت آباد تھی۔ہندوو�¿ں کے مفادات کے تحفظ کے لئے بھارت ان کی پشت پناہی کررہا تھا۔بھارت مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنا چاہ رہاتھا تاکہ ہندوو�¿ں کی معاشی اور اقتصادی حالت مستحکم ہوسکے۔بے شمار ہندو بھارت کے لئے جاسوسی کرتے تھے۔روس بھی پاکستان کا مخالف تھا کیونکہ پاکستان نے امریکہ کو اپنے ہاں فوجی اڈے قائم کرنے کی اجازت دے دی تھی۔دوسری جانب خود امریکہ بھی مشرقی پاکستان کی علیحدگی چاہتا تھا۔ان حالات میں روس نے پاکستان پربھارت کے حملے اور جارحیت کی حمایت کی۔
1970 میں شیخ مجیب الرحمن کی اکثریت
1970 کے عام انتخابات میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں واضح اکثریت اور برتری حاصل کرلی اور 162 نشستوں میں سے 160 پر کامیابی حاصل کی۔ان کے علاوہ عوامی لیگ نے خواتین کے لئے مخصوص تمام نشستوں پر بھی کامیابی حاصل کی۔انتخابات میں اکثریت حاصل ہونے کے بعد شیخ مجیب الرحمن نے اپنے مطالبات میں اضافہ کرنا شروع کردیا لیکن اس وقت کے فوجی حکمرانوں نے ان مطالبات کو نظر انداز کردیا۔
بھارت کا حملہ
فوجی کارروائی کے نتیجے میں عوامی لیگ کے رہنما اور بنگالیوںکی ایک کثیر تعداد بھارت فرار ہوگئی۔بھارت نے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت شروع کردی۔بھارت نے یہ گمراہ کن پروپیگنڈہ شروع کردیا کہ مشرقی پاکستان کے لاکھوں پناہ گزینوں کی وجہ سے اس کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی کو بھارت نے اپنے اوپر حملہ قرار دیا تھا۔شیخ مجیب الرحمن نے مکتی باہنی (آزادی کی فوج )کے نام سے ایک نیم فوجی لشکر ترتیب دیا تھا۔ جس نے پاکستانی فوج کے خلاف گوریلا جنگ کا آغاز کردیا۔ اس کی حمایت میں بھارت نے بھی پاکستانی فوج پر حملے شروع کردیئے۔3 دسمبر 1971 کو پاکستان اور بھارت کے درمیان باقاعدہ جنگ کا آغاز ہوگیا۔ اندرون ملک عوام کی حمایت نہ ہونے کی وجہ سے 16 دسمبر 1971 کو پاکستا ن کی فوج نے بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے جبکہ مغربی پاکستان کے محاذ پر بغیر کسی بڑے حملے کے جنگ بند کردی گئی۔

سوال: ملک میں خوشحالی لانے کے لئے پاکستانیوں کو کیا کردار ادا کرنا چایئے؟


سوال: ملک میں خوشحالی لانے کے لئے پاکستانیوں کو کیا کردار ادا کرنا چایئے؟ خوشحالی کے اقدامات
پاکستان ایک عطیہ خداوندی ہے۔ اس کا استحکام اور خوشحالی پاکستانیوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔پاکستان مخالف عناصر بحیثیت ملک پاکستان کو اور بحیثیت قوم مسلمانوں کونقصان پہنچانے میں مشغول ہیں۔ان حالات میں ہماری ذمہ داریاں ہمہ جہتی ہیں۔پاکستان کے استحکام اور خوشحالی کے لئے ہمارا کردار حسب ذیل ہونا چاہئے۔
(۱) ہمیں سخت محنت سے کام کرنا چاہئے اور قومی نشوونما اور فروغ کے تمام شعبوں میں ترقی کرنی چاہئے تاکہ ملک خوشحال اور معاشی طور پر آزاد ہو۔
(۲) ہمیں لسانیت اور علاقائیت سے بلند تر ہوکر سوچنا چاہئے۔
(۳) ہمیں اپنے قول و فعل سے پاکستان سے محبت اور حب الوطنی کا اظہار کرنا چایئے۔
(۴) ہمیں اپنی نوجوان نسل کو تعلیم یافتہ بنانا چائےے اور ملک کے دور دراز علاقوں تک تعلیم کو پھیلانا چائےے کیونکہ لوگوں میں شعور بیدار کرنے کئے لئے تعلیم و احد ذریعہ ہے۔
(۵) ہمیں خودانحصار ہونے کی کوشش کرنی چاہئے اورغیروں سے بھاری قرضے اور امداد لینے سے پرہیز کرنی چایئے۔ یہ صرف سخت محنت اور جانفشانی سے ہی ممکن ہے۔
(۶) ہمیں ایسانظام حکومت تشلیل دینا چاہئے جو معاشرتی عدل و انصاف اور اخوت پر مبنی ہو۔تمام برائیوں، بدعنوانیوں اور بے ایمانیوں سے بچنا چایئے۔

سوال: 1973 کے آئین کے اہم نکات تحریر کریں؟


سوال: 1973 کے آئین کے اہم نکات تحریر کریں؟ (۱) 1973کے آئین کی بنیاد بھی قراردادِ مقاصد پر رکھی گئی تھی۔
(۲) ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا گیا اور اسلام کو ریاست کا سرکاری مذہب قرار دیا گیا۔
(۳) مسلمان کی تعریف کو آئین کا حصہ بنایا گیا اور یہ کہا گیا کہ
” ایسا شخص مسلمان ہے جو اللہ پر اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پراللہ کے آخری نبی ہونے کا کامل ایمان رکھتا ہو۔“
(۴) سربراہ مملکت یعنی صدر اور سربراہ حکومت یعنی وزیراعظم مسلمان ہوں گے۔
(۵) قرار داد مقاصد کو آئین میں دیباچہ کے طور پر شامل کیا گیا جس میں یہ کہا گیا ہے کہ تمام کائنات کا مالک، حاکم اعلیٰ اور مقتدر اعلیٰ صرف اللہ تعالیٰ ہے اور عوام کے پاس اختیار و اقتداراللہ کی امانت ہے جسکو وہ اللہ کی مقررہ کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے استعمال کرسکتے ہیں۔
(۶) ملک میںوفاقی پارلیمانی نظام رائج کیا گیا۔وزیراعظم کو بہت زیادہ اختیار دیئے گئے ہیں۔صدر مملکت کے اختیارات کو بہت محدود کردیا گیا۔عملی طور پر صدر مملکت وزیر اعظم کی رضامندی کے بغیر احکامات جاری نہیںکرسکتاتھا۔
(۷) پاکستان میں پہلی مرتبہ دو ایوانوں پر مشتمل پارلیمان قائم کی گئی ہے۔ایوانِ بالا کا نام سینیٹ اور ایوانِ زیریں کا نام قومی اسمبلی رکھا گیا ہے۔
(۸) صوبائی حکومت کو صوبائی خودمختاری دی گئی ہے۔
(۹) عوام کے حقوق کے تحفط کے لئے عدلیہ کی آزادی کو ضروری تحفظات مہیا کیے گئے ہیں۔
(10) آئین کی رو سے ایک اسلامی نظریاتی کونسل قائم کی گئی تاکہ وہ اسلامی اصولوں کے مطابق حکومت کی رہنمائی کرے۔ ۳۷۹۱ءکے آئین کے تحت یہ ایک مشاورتی ادارہ ہے جو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ایسے اقدامات کے لئے سفارشات پیش کرتا ہے جو مسلمانوں کو اسلامی اصولوں و ضوابط کے مطابق زندگی گزارنے میں مدد گار ثابت ہوں۔یہ کونسل موجودہ قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے لئے بھی اپنی رائے دے سکتی ہے۔

سوال: آب و ہوا سے کیا مراد ہے؟


سوال: آب و ہوا سے کیا مراد ہے؟ آب و ہوا کسی علاقے یا ملک کی طویل عرصے کی موسمی کیفیات کا مطالعہ آب و ہوا کہلاتا ہے۔موسمی کیفیات سے مراد ہوا کا دباو، درجہ حرارت، رطوبت (نمی) اور بارش کی اوسط شامل ہے۔ پاکستان خطہ سرطان کے شمال میں واقع ہے جبکہ یہ ملک مون سون آب و ہوا کے خطے کے انتہائی مغرب میں واقع ہے لہٰذا اس ملک کی آب وہوا خشک اور گرم ہے۔

سوال: پاکستان کے مختلف آب و ہوائی خطے کون سے ہیں؟

سوال: پاکستان کے مختلف آب و ہوائی خطے کون سے ہیں؟ سالانہ درجہ حرارت،سالانہ بارش اورمجموعی فضائی کیفیات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کو مندرجہ ذیل چار آب و ہوائی خطوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
(۱) بری آب و ہوا کا پہاڑی خطہ
(۲) بری آب و ہوا کا سطح مرتفع خطہ
(۳) بری آب و ہوا کا میدانی خطہ
(۴) بری آب و ہوا کا ساحلی خطہ
(۱) بری آب و ہوا کا پہاڑی خطہ
آب و ہوا کے اس خطہ میں پاکستان کے تمام شمال مشرقی اور شمال مغربی پہاڑی علاقے شامل ہیں۔ یہاں کا موسم سرما سرد ترین ہوتا ہے اور عموماً برف باری ہوتی ہے۔موسم گرما ٹھنڈا ہوتا ہے جبکہ موسم سرما اور بہار میں بارش اور اکثر دھند رہتی ہے۔
(۲) بری آب و ہوا کا سطح مرتفع خطہ
آب و ہوا کے اس خطہ میں زیادہ تر بلوچستان کا علاقہ آتا ہے۔مئی سے وسط ستمبر تک گرم اور گرد آلود ہوائیں مسلسل چلتی رہتی ہیں۔سبی اور جیکب آباد اسی خطہ میں واقع ہیں۔جنوری اور فروری کے مہینوں میں کچھ بارشیں ہوتی ہیں۔موسم شدید گرم اور خشک رہتا ہے جبکہ گرد آلود ہوائیں اس خطے کی اہم خصوصیت ہیں۔
(۳) بری آب و ہوا کا میدانی خطہ
آب و ہوا کے اس خطہ میں زیادہ تر بلوچستان کا علاقہ آتا ہے۔ دریائے سندھ کا بالائی علاقہ(صوبہ پنجاب) اور زیریں میدان (صوبہ سندھ) شامل ہیں۔ اس خطہ کی آب و ہوا میں موسم گرما میں زیادہ درجہ حرارت رہتا ہے اور موسم گرما کے آخر میں مون سون ہواو�¿ں سے شمالی پنجاب میں زیادہ بارشیں ہوتی ہیں جبکہ بقیہ میدانی علاقے میں بارشیں کم ہوتی ہیں موسم سرما میں بھی بارش کی یہی صورتحال رہتی ہے۔ تھر اور جنوب مشرقی صحرا خشک ترین علاقے ہیں یعنی بارش بہت کم ہوتی ہے۔پشاور کے میدانی علاقے میں طوفان بادو باراں آتے ہیں۔ پشاور میں موسم گرما میں گرد کے طوفان اکثر چلتے ہیں۔
(۴) بری آب و ہوا کاساحلی خطہ
آب و ہوا کے اس خطہ میں صوبہ سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقے شامل ہیں۔ سالانہ اور روزانہ درجہ حرارت میں بہت کم فرق ہوتا ہے۔موسم گرما کے دوران نیم بحری (سمندر سے آنے والی ہوائیں) چلتی ہیں۔ہوا میں نمی زیادہ ہوتی ہے۔سالانہ اوسطاً درجہ حرارت 32 درجے سینٹی گریڈ ہوتا ہے۔بارش 180 ملی میٹر سے کم ہوتی ہے۔مئی اور جون گرم ترین مہینے ہیں۔لسبیلہ کے ساھلی میدان میں بارش موسم گرما اور سرما دونوں موسموں میں ہوتی ہیں۔ پاکستان اگر چہ مون سون آب و ہوا کے خطے میں واقع ہے لیکن اس کے انتہائی مغرب میں ہونے کی وجہ سے اس خطے کی خصوصیات کا حامل نہیںہے۔لہٰذا پاکستان کی آب و ہوا خشک اور گرم ہے۔ درجہ حرارت میں انتہائی اختلاف ہے۔ پاکستان کا بہت بڑا حصہ سمندر سے دور واقع ہے۔

سوال: آب و ہوا انسانی زندگی پر کیسے اثرانداز ہوتی ہے؟

سوال: آب و ہوا انسانی زندگی پر کیسے اثرانداز ہوتی ہے؟ آب و ہوا کا زندگی پر اثر آب و ہوا سے انسانی حیات پر گہرے اثرات پڑتے ہیں کسی جگہ کی آب و ہوا اور موسمی کیفیات اس علاقے کے مکینوں کی بودوباش، لباس، غذا، مصروفیات، کھیل، رسوم و رواج اور اقتصادی سرگرمیوںکو زیادہ متاثر کرتی ہے۔پاکستان رقبے کے لحاظ سے ایک وسیع و عریض ملک ہے ۔ اس کے مختلف خطوں کی آب و ہوا میں نمایاں فرق ہے۔ اس کی وجہ سے مختلف علاقوں کے عوام کے رہن سہن کے طریقوں اور رسوم و رواج میں بھی فرق نظرآتا ہے۔ پاکستان کے شمالی پہاڑی علاقوں میں موسم سرما شدید نوعیت کا ہوتا ہے۔ درجہ�¿ حرارت نقطہ انجماد سے بھی نیچے گر جاتا ہے اور اکثر علاقے برف سے ڈھک جاتے ہیں۔اس شدید سردی کے باعث اس علاقے کی انسانی، حیوانی اور نباتاتی زندگی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔اس علاقے کے لوگ سردیاں شروع ہونے سے قبل ہی ضروری غذائی اجناس اور مویشی جمع کرنا شروع کردیتے ہیں۔ سردیوں میں لوگ گھروں میں محصور ہوکر رہ جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ یہاں کے لوگ گھریلوصنعتوں اور دستکاریوں پر توجہ دیتے ہیں۔کچھ لوگ موسم سرما میں روزی کمانے کی غرض سے عارضی طور پر میدانی علاقوں میں نکل مکانی کرجاتے ہیں اور موسم گرما شروع ہوتے ہی اپنے گھروں کو واپس لوٹ آتے ہیں۔ گرمیوں کے شروع ہوتے ہی جب برف پگھلنا شروع ہوتی ہے تو زندگی کی گہما گہمی شروع ہوجاتی ہے۔اس موسم کے مختصر عرصے میں درخت، پودے، گھاس وغیرہ جلدی پھلتے پھولتے ہیں اور پروان چڑھتے ہیں۔ سردیوں میں جو چشمے، ندی نالے منجمد ہوگئے تھے ان میں شفاف پانی بہنا شروع ہوجاتا ہے۔ جس سے اس علاقے کے حسن میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔لوگ اپنی بیرون خانہ زندگی یعنی زراعت، تجارت اور محنت مزدوری وغیرہ دوبارہ شروع کردیتے ہیں۔شمالی علاقوں کے عوام کی صحت پر بھی اس سرد آب و ہوا کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ وہ جسمانی طور پر بہت مضبوط ہوتے ہیں۔ ان کا رنگ گورا ہوتا ہے۔ وہ سخت جفا کش اور بہادرہوتے ہیں۔ سخت طرز زندگی نے ان کو باہمت، جرا�¿ت مند اور مضبوط بنادیا ہے۔ پاکستان کے میدانی علاقوں کی آب و ہوا میں شدت پائی جاتی ہے یعنی موسم گرما میں شدید گرمی اور موسم سرما میں شدید سردی ہوتی ہے۔سردیوں میں دل جمعی اور خوشدلی سے کام کرنا آسان ہوتا ہے جبکہ گرمیوں میں کارکردگی بہت متاثر ہوتی ہے۔گرمیوں مین ہلکے کپڑے پہنے جاتے ہیں جبکہ سردیوں میں موٹے کپڑے استعمال میں آتے ہیں۔ان علاقوں کی زمین اور آب و ہوا دونوں زراعت کے لئے انتہائی موزوں ہیں۔موسم سرما و گرما میں مختلف فصلیں پیدا ہوتی ہیں چونکہ ان علاقوں میں کثیر مقدار میں غذائی اجناس سبزیاں اور پھل پیدا ہوتے ہیں۔اس لیے یہاں کے لوگ بہت خوشحال ہیں۔ شمالی علاقوں کی نسبت میدانی علاقے بہت زیادہ گنجان آباد ہیں ذرائع آمد و رفت اور نقل و حمل کے سہولتیں فراوانی کے ساتھ دستیاب ہیں۔ یہاںکے عوام بالواسطہ یا بلاواسطہ زراعت سے وابستہ ہیں۔ یہاں تعلیم اور زندگی کی دیگر تمام سہولتیں میسر ہیں۔عوام کے پاس روزگار کے بے شمار مواقع موجود ہیں۔ پاکستان کے جنوبی حصے اور علاقے زیادہ ترریگستان اور صحراہیں۔ ےہاں سخت گرمی ہوتی ہے۔ گرد آلود آندھیاں چلتی ہیں اور ریت کے طوفان بکثرت آتے ہیں۔یہاں کے رہنے والے خودکو گرمی اورلو سے بچانے کی خاطر موٹے موٹے کپڑے پہنتے ہیں اور سر پر پگڑی باندھتے ہیںاور اپنے جسموں کو کپڑوں سے ڈھانپ کر رکھتے ہیں ۔ یہ لوگ راتوں کو سفر کرتے ہیں کیونکہ کہ راتوں کو صحرا نسبتاً ٹھنڈے ہوتے ہیں۔یہاں کے لوگ بھیڑ، بکریاں اور دیگر مویشی پالتے ہیں۔جن علاقوں میں نہروں کے ذریعے آبپاشی ہوتی ہے وہ زیر کاشت ہے۔ سطع مرتفع بلوچستان کی آب و ہوا بھی شدید قسم کی ہے۔ موسم سرما میں اکثر علاقوں میں شدید سردی پڑتی ہے اور بعض مقامات پر برف باری بھی ہوتی ہے ۔ سردیوں میں عوام اندرون خانہ سرگرمیوں میں مصروف ہوتے ہیںاور زیادہ تر وقت فروخت کرنے کے لئے تحفے تحائف تیار کرنے میں گزارتے ہیں۔ان سرد علاقوں کے بعض لوگ گرم علاقوں کی طرف نقل مکانی کرجاتے ہیںاور گرمیوں میں واپس لوٹ آتے ہیں۔ موسم گرما میں بلوچستان کے میدانی علاقے انتہائی گرم ہوتے ہیں۔لوگ ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہنتے ہیں۔ مصنوعی ندی نالوں کے ذریعے پانی جمع کیا جاتا ہے جنہیں”کاریز“کہا جاتا ہے۔آجکل ان میں سے بیشتر کاریز خشک ہوگئے ہیں۔
شدید سرد علاقوں کے لوگ گرم اونی اور موٹے کپڑے پہنتے ہیں۔ چھوٹے کمروں کے مکانات بناتے ہیں تاکہ وہ جلدی اور آسانی سے گرم ہوسکیں۔ان علاقوں کے رہنے والے افراد ایسی غذا استعمال کرتے ہیں۔ جن میں پروٹین اور چکنائی زیادہ ہوتی ہے تاکہ ان کو مناسب حرارت مل سکے وہ چکنا گوشت اور گندم اور مکئی کی روٹی کھاتے ہیں۔وہ چائے اور کافی پیتے ہیں۔سرد علاقوں میں نقل و حرکت بہت کم اور دشوار ہوتی ہے۔برف باری کے سبب سڑکیں بند ہوجاتی ہیںاور لوگ اپنے گھروں میں محصور ہوکر رہ جاتے ہیں۔اس لئے سرد علاقوں میں آبادی کم ہوتی ہے۔موسم سرما میں کوئی تفریح اور دلچسپی بھی نہیں ہوتی ہے۔ موسم گرما مختصر مگر بہت خوشگوار ہوتا ہے۔ سرد علاقوں میں ملازمتوں کے مواقع بہت محدود ہوتے ہیں۔ اس لئے ان علاقوں کے عوام زیادہ خوشحال نہیں ہیں۔
سرد علاقوں کے مقابلے میں میدانی اور صحرائی علاقوں میں رہنے والے افراد گرمیوں کے موسم کی وجہ سے ڈھیلے کپڑے پہنتے ہیں۔ ان کے مکانات کھلے اور ہوادار ہوتے ہیں۔گرم علاقوں کے عوام گندم کی روٹی اور مچھلی کھاتے ہیں۔ وہ مختلف اقسام کے شربت پیتے ہیں۔ یہاں کے لوگ سارا سال کھیتی باڑی اور زراعت میں مصروف رہتے ہیں۔یہاں کے رہنے والے افرادمختلف قسم کی ملازمتیں کرتے ہیں۔ جن میں کاروباری، تجارتی اور سرکاری دفاتر اور نجی اداروں میں ملازمتیں شامل ہیں۔ملازمتوں کے مواقع اور دیگر سہولیات کی فراہمی کی وجہ سے ان علاقوں میں آبادی زیادہ ہوتی ہے اور یہاں کے عوام سرد علاقوں کے عوام کے مقابلے میں زیادہ خوشحال ہوتے ہیں۔

سوال: ماحولیاتی آلودگی سے آبادی کے اضافے کا کیا تعلق ہے؟

سوال: ماحولیاتی آلودگی سے آبادی کے اضافے کا کیا تعلق ہے؟ ماحولیاتی مسائل
ساری دنیا میں ماحولیاتی آلودگی ایک بہت بڑا مسئلہ بن کر سامنے آئی ہے اس کی وجوہات میں بڑھتی ہوئی آبادی، تیز رفتار صنعتی ترقی اور بڑی اور چھوٹی گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں شامل ہیں۔ ماحولیات کا علم ایک نئے علم کے طور پربھر رہا ہے تاکہ پانی، ہوا، فضا اور زمین میں آلودگی سے لوگوں کو آگاہ کیا جاسکے اور ان میںاس کی بابت شعور پیدا ہوسکے۔ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں ماحولیاتی آلودگی روز بروز بڑھ رہی ہے۔

سوال: جنوبی ایشاءکے خطے میں پاکستان کے محل و وقوع کی اہمیت بیان کریں


سوال: جنوبی ایشاءکے خطے میں پاکستان کے محل و وقوع کی اہمیت بیان کریں؟ پاکستان کے محل و وقوع کی اہمیت
پاکستان کا محل و وقوع بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ پاکستان جس خطے میں واقع ہے اس کی دفاعی، فوجی، اقتصادی اور سیاسی اہمیت نمایاں ہے۔ مندرجہ ذیل عوامل یا وجوہات کی بناءپر اس کی اہمیت عیاں ہے۔
(۱) تجارتی شاہراہ
شمال میں یہ چین سے جڑا ہوا ہے۔ شاہراہ قراقرم برّی اور زمینی راستے سے چین اور پاکستان کو باہم ملاتی ہے۔ یہ شاہراہ سلسلہ قراقرم کی چٹانوں کو کاٹ کر بنائی گئی ہے اور یہ چین اور پاکستان کے مابین اہم تجارتی شاہراہ ہے۔ پاکستان کے چین سے ساتھ انہتائی دوستانہ تعلقات ہیں۔
(۲)برّی اور بحری راستوں کی سہولت
پاکستان افغانستان کو تجارت کے لئے برّی اور بحری راستوںسے راہداری کی سہولت مہیا کرتا ہے۔
(۳) وسطی ایشیاءسے خوشگوارتعلقات
چین کے مغرب میں افغانستان کے علاقے کی ایک تنگ پٹی واخان، پاکستان کی شمالی سرحد کو تاجکستان سے جدا کرتی ہے۔ پاکستان نے وسطی ایشیاءکے اس ملک کے ساتھ انتہائی خوشگوار تعلقات قائم کرلئے ہیں۔
(۴) مسلم ممالک سے خوشگوار تعلقات
پاکستان کے مشرق میں بھارت واقع ہے۔ بھارت کے مشرق میں بنگلہ دیش، ملائشیا، انڈونیشیا اور برونائی دارالسلام کے مسلم ممالک واقع ہیں۔ پاکستان کے ان تمام ممالک سے انتہائی خوشگوار تعلقات ہیں۔
(۵) (ایکو) کے بنیادی اراکین
پاکستان کی جنوب مغربی سرحد پر ایران واقع ہے۔ پاکستان ایران اور ترکی اقتصادی تعاون کی تنظیم (ایکو) کے بنیادی اراکین ہیں اس تعاون کے نتیجے میں تمام رکن ممالک کے مابین انتہائی دوستانہ تعلقات قائم ہیں۔ ان ممالک نے باہمی دلچسپی کے کئی معاہدوں پر دستخط کئے ہیں۔
(۶) کراچی بحرہ عرب کی اہم بندرگاہ
پاکستان تیل پیدا کرنے والے خلیجی ممالک کے نزدیک اور مغرب میں مراکش سے لے کر مشرق میں انڈونیشیا تک پھیلی ہوئی مسلم دنیا کے درمیان میں واقع ہے۔بے شمار مغربی ممالک کی صنعتی ترقی کا انحصار خلیجی ممالک کی تیل پیداوار پر ہے۔یہ تیل دوسرے ممالک کو بحیرہ عرب کے ذریعے بھیجا جاتا ہے اور کراچی بحیرہ عرب کی انتہائی اہم بندرگاہ ہے۔
(۷) مشرق وسطیٰ اور خلیج کے مسلم ممالک سے دوستانہ تعلقات
مشرق وسطیٰ اور خلیج کے مسلم ممالک سے پاکستان کے انتہائی دوستانہ تعلقات ہیں۔ پاکستان نے ان ممالک کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سعودی عرب اور عرب امارات جیسے ممالک پاکستانیوں کے لئے دوسرے گھر کی حیثیت رکھتے ہیں۔
(۸) کراچی ایک بین الاقوامی بندرگاہ اور ہوائی اڈہ
کراچی ایک بین الاقوامی بندرگاہ اور ہوائی اڈہ ہے ۔ یہ ہوائی اور بحری راستوں سے یورپ کو ایشیا سے ملاتا ہے۔وہ تمام ممالک جو مشرق وسطیٰ اور وسط ایشیائی ممالک سے رابطہ کرنا چاہتے ہیں وہ پاکستان کے محل و وقوع کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔
(۹) گندھارا کی قدیم تہذیبیں اور سیاحت
پاکستان میں وادی سندھ اور گندھارا کی قدیم تہذیبیں ہیںاور سیاحت کے نقطہ نظر سے یہ بہت اہمیت رکھتی ہے۔ بے شمار سیاح وادی کاغان، سوات اور پاکستان کے شمالی علاقوں کی سیاحت کو پسند کرتے ہیں۔
(۰۱) دوستانہ تعلقات
پاکستان، افغانستان اور ترکمانستان نے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ جس کے تحت پاکستان کو افغانستان کے راستے گزرنے والی پائپ لائن کے ذریعے گیس مہیا کی جائے گی۔ یہ منصوبہ ایک دوسرے کے مابین دوستانہ تعلقات کو پروان چڑھانے میں مددگار ثابت ہوگا۔ پاکستان کی رضامندی سے بھارت بھی اس منصوبے سے فائدہ اٹھاسکتا ہے۔
(۱۱) مسئلہ کشمیر
پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر حل ہوجائے تو پورے جنوبی ایشیاءکے خطے میں امن قائم ہوجائے گا اور تجارت کو فروغ ملے گا۔دونوں ممالک کے درمیان خوشگوار، سیاسی اور اقتصادی تعلقات سے اس خطے میں غربت اور افلاس کے خاتمے میں مدد ملے گی۔
(۲۱) ساتویں ایٹمی قوت
پاکستان دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت ہے اورمسلم دنیا میں اس کو انتہائی تحسین اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔مسلم ممالک کی نظریں پاکستان پر لگی ہوئی ہیں کہ وہ کئی میدانوں میں مشترکہ ترقی اور فروغ کے لئے قائدانہ کردار ادا کرے گا اور رہنمائی فراہم کرے گا۔حالیہ دنوں میں یہ بیرونی سرمایہ گاری کا مرکز بن گیا ہے۔

سوال: پاکستان کے طبعی خدوخال مختصراً بیان کریں؟


سوال: پاکستان کے طبعی خدوخال مختصراً بیان کریں؟ پاکستان کے طبعی خدوخال
پاکستان کی ارضی سطح کو طبعی خدوخال کے لحاظ سے مندرجہ ذیل چار بڑے حصّوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
(۱) پہاڑی سلسلے
(۲) سطع مرتفع
(۳) میدانی علاقے
(۴) ریگستانی علاقے بشمول ساحلی علاقے
(۱) پہاڑی سلسلے (سلسلہ کوہ)
پاکستان کے پہاڑی سلسلوں کو دو حصّوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اول شمالی اور شمال مشرقی پہاڑی سلسلہ اوردوم مغربی اور شمال مغربی پہاڑی سلسلہ۔ (اول) شمالی اور شمال مشرقی پہاڑی سلسلہ اس حصے میں کوہِ ہمالیہ اور کوہِ قراقرم شامل ہیں۔ سلسلہ کوہِ ہمالیہ
(۱) شوالک کی پہاڑیاں/ہمالیہ بیرونی کاسلسلہ
(۲) پیر پنجال./ ہمالیہ صغیر کا سلسلہ
(۳) ہمالیہ کبیر کا سلسلہ
(۴) کوہِ لداخ/ہمالیہ کا اندرونی سلسلہ
(دوم) شمال مغربی اور مغربی پہاڑی سلسلہ
پاکستان کے شمال میں واقع سلسلہ کوہِ یا پہاڑی سلسلہ کو ہمالیہ کی مغربی شاخیں بھی کہا جاتا ہے۔ شمالی پہاڑیوں کے مقابلے میں یہ کم بلند ہیں۔ پہاڑی سلسلوں کو مندرجہ ذیل حصّوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
(۱) سلسلہ کوہِ ہندو کش
(۲) سلسلہ کوہِ سفید
(۳) وزیرستان کی پہاڑیاں
(۲) سطع مرتفع
پاکستان میں مندرجہ ذیل دو سطع مرتفع واقع ہیں
(۱) سطع مرتفع پوٹھوہار
(۲) سطع مرتفع بلوچستان
(۳) میدانی علاقے
پاکستان کے میدانی علاقے دریائے سندھ اوراس کے معاون دریاو�¿ں کی لائی ہوئی مٹی سے بنے ہیں۔ یہ وسیع و عریض میدانی علاقے تین حصّوں میں تقسیم کئے جاسکتے ہیں۔
(۱) دریائے سندھ کا بالائی میدان
(۲) دریائے سندھ کا زیریں میدان
(۳) دریائے سندھ کا ڈیلٹائی میدان
(۴) ریگستانی علاقے بشمول ساحلی علاقے
پاکستان کے جنوب مشرق میں ایک وسیع و عریض علاقہ ریت کے ٹیلوں سے بھرا ہوا ہے۔یہ ٹیلے اپنی جگہ بدلتے رہتے ہیں۔پاکستان کے ریگستانی علاقوں میں بارشیں بہت کم ہوتی ہیں ۔ اس لئے ان ریگستانوں میں قدرتی نباتات نہیں پائی جاتی ہیں۔ پاکستان کے کچھ میدانی علاقے بھی ریگستانی یا نیم ریگستانی علاقے کہلائے جاتے ہیں کیوں کے ان کے طبعی حالات میدانی علاقوں سے مختلف ہیں۔ ان میں سے چند صوبہ پنجاب میں اور کچھ صوبہ سندھ میں واقع ہیں یہ علاقے حسب ذیل ہیں۔
(۱) تھل کا ریگستانی علاقہ
(۲) چولستان کا ریگستانی علاقہ
(۳) تھر اور نارا کا ریگستانی علاقہ
(۴) چاغی اور خاران کا ریگستانی علاقہ

سوال: شمالی مشرقی پہاڑی سلسلوں کے فوائد بتائیے؟

سوال: شمالی مشرقی پہاڑی سلسلوں کے فوائد بتائیے؟ شمالی اور شمالی مشرقی پہاڑی سلسلے کے فوائد
(۱) یہ پہاڑ پاکستان کے لئے بہت مفید ہیں۔ یہ اپنی بلند اور ناہموار سطح کی وجہ سے پاکستان کو شمال کی جانب سے ایک قدرتی حصار اور دفاع مہیا کرتا ہے۔
(۲) یہ پاکستان کی قطب شمالی سے اٹھنے والی خون جمادینے والی سرد ہواو�¿ں سے محفوظ رکھتی ہے ورنہ موسم سرما میں پنجاب و سرحد برف سے ڈھک جاتے اور سردیوں کی طویل لہر اور طویل دورانیہ سے زندگی انتہائی دشوار ہوجاتی۔
(۳) مون سون کے موسم میں ان پہاڑیوں کی وجہ سے پنجاب اور شمالی علاقوں میں بہت زیادہ بارشیں ہوتی ہیں۔ انہیں بارشوں کا پانی دریاوّںکے راستے آبپاشی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
(۴) ہمارے ملک کے 80% (اسّی فیصد) جنگلات ان ہی پہاڑوںمیں واقع ہیں اگر چہ ہمارے ملک کے 4.5فیصد جغرافیائی رقبے میں جنگلات پھیلے ہوئے ہیںلیکن یہ جنگلات بہت گھنے ہیں اور ملک کے لئے دولت و سرمایہ کا ذریعہ ہے۔
(۵) موسم سرما میں یہ پہاڑ برف سے ڈھک جاتے ہیں جو موسم گرما میں پگھلتی ہے اور زیر زمین پانی کی سطح کو بلند کرتی ہے جو زراعت کے کام آتا ہے۔

سوال: وسائل کے معنی اور اہمیت بیان کیجئے؟

سوال: وسائل کے معنی اور اہمیت بیان کیجئے؟ وسائل کے معنی
دنیا میں دو طرح کے وسائل پائے جاتے ہیں۔ اوّل انسانی وسائل ہیںجس کا مطلب یہ ہے کہ مختلف کاموں کو سرانجام دینے کے لئے انسانوں میں کس قدر قابلیت، صلاحیت اور اہلیت ہے۔ مختلف پیشوں کی نوعیت کے لحاظ سے لوگوں میں ایک دوسرے سے امتیاز کیا جاتا ہے۔جب تمام پیشوں کو باہم ایک جگہ جمع کیا جاتا ہے تو اسی کو انسانی وسائل کہا جاتا ہے۔ وسائل کی دوسری قسم قدرتی وسائل کہلاتی ہے جو قدرت نے مہیا کئے ہیں قدرتی وسائل پیداوار کا ذریعہ ہیں۔
قومی ترقی میں وسائل کی اہمیت
یہ وسائل مندرجہ ذیل وجوہات کی بناءپر اہم ہیں۔
(۱) یہ کسی بھی قوم کی حقیقی دولت اور سرمایہ ہیں۔ایسے ممالک نے بہت زیادہ ترقی اور خوشحالی حاصل کی ہے جہاں انسانی اور قدرتی وسائل موجود ہوں۔تاہم ترقی اور خوشحالی کا انحصار ان وسائل کے دانشمندانہ اور ذہانت کے ساتھ مناسب استعمال پر ہے۔دنیا میں کئی ممالک ایسے ہیں جہاں انسانی اور قدرتی وسائل موجود ہیں لیکن منصوبہ بندی اور محنت و مشقت کے فقدان کی وجہ سے ان وسائل سے فائدہ نہیں اٹھایا جارہا۔
(۲) یہ وسائل کسی بھی ملک کی حفاظت اور سلامتی کا ذریعہ ہیں۔ انسانی اور مادی وسائل ملک کے دفاع کو مضبوط کرنے میں مددگار ثابت ہوت ہیں۔ ان ہی قدرتی وسائل سے مظبوط فوجی نظام تشکیل دینے کے لئے درکار تمام مادی ضروریات مہیا ہوتی ہیںاور انسانی وسائل ان قدرتی وسائل کو استعمال کرنے میں مدد کرتے ہیں۔
(۳) یہ وسائل کسی ملک کی شہرت اور احترام کا سبب بنتے ہیں۔ مثال کے طور پر تمام مغربی ممالک ترقی پذیر ممالک کے عوام کو اپنی جانب راغب کرتے ہیں تاکہ وہ ان ترقی یافتہ ممالک کے کثیر وسائل سے فائدہ اٹھاسکیں۔
(۴) یہ وسائل کسی ملک کی مادی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ اسی میں ضروریات زندگی آسائش اور عیش و آرام سب شامل ہے۔
(۵) یہ وسائل تجارت اور کاروبار کو پروان چڑھانے میںمدد کرتے ہیں۔ ان وسائل سے مالا مال ممالک نے ساری دنیا کی تجارت پر قبضہ کرلیا ہے۔ ان کی معیشت مضبوط ہے اور وہاں کے عوام کی قوت خرید بہت زیادہ ہے اور وہ ایک خوشحال زندگی گزاررہے ہیں۔
(۶) ان وسائل سے کسی ملک کی تیز رفتار ترقی اور خوشحالی میں مدد ملتی ہے۔
(۷) ان وسائل سے لوگوں کی پیٹ بھر کے غذا اور زندگی کی دیگر آسائشیں ملتی ہیں۔یہ قومی اداروں کی تشکیل میں مدد دیتے ہیں۔ ان سے قومی اتحاد اور ذاتی کردار مضبوط ہوتا ہے۔ ان وسائل سے ایمانداری، دیانت داری، حق گوئی اور رواداری و برداشت کی اعلیٰ صفات کو فروغ

سوال: مختلف قسموں کے وسائل کا نام بتائیے؟

سوال: مختلف قسموں کے وسائل کا نام بتائیے؟ انسانی وسائل
ایسے افراد جو مختلف پیشوں اور روزگار میں مشغول ہوتے ہیں مل کر انسانی وسائل کو تشکیل دیتے ہیں۔مختلف پیشوں اور شعبوں میں کام کرنے والے انسانوں کی لیاقت، قابلیت، اہلیت اور مہارت کو جمع کیا جائے تو یہ ہی انسانی وسائل ہیں اور کسی بھی ملک کے لئے یہ انسانی وسائل ہی انسانی طاقت کہلاتے ہیں۔ اسی انسانی طاقت کی مختلف ملازمتوں میں درجہ بندی کی جاتی ہے۔یہ بات قابل توجہ ہے کہ دس سال سے زائد عمر کا کوئی بھی فرد جو اپنے لئے کام کرتا ہے یا دوسروں کے لئے کم از کم ایک گھنٹے روزانہ ملازمت کرتا ہے وہ ایک باروزگار شخص تصور کیا جاتا ہے۔پاکستان کی انسانی طاقت مختلف پیشوں اور روزگاروں سے وابستہ ہے۔ مثلاً زراعت، کان کنی، عمارت سازی، تجارت، مواصلات، سرکاری ملازمتیں اور دیگر تمام بامعاوضہ کام۔
قدرتی وسائل
ایسے وسائل جو اللہ تعالیٰ نے دنیا کے مختلف ممالک کو زرخیزمٹی، جنگلات، معدنیات اور پانی وغیرہ کی شکل میں عطا کئے ہیں قدرتی وسائل کہلاتے ہیں۔ یہ وسائل عطیہ خداوندی ہیں۔انسان ان کا کھوج لگا سکتا ہے اور ان قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھاسکتا ہے۔

سوال: جنگلات کے کیا فائدہ ہیں؟


سوال: جنگلات کے کیا فائدہ ہیں؟ جنگلات جنگلات کسی بھی ملک کی معیشت کا لازمی جز ہیں۔ملک کی متوازن معیشت کے لئے ضروری ہے کہ اس کے 25 فیصد رقبے پر جنگلات ہوں۔جنگلات قدرتی وسائل کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ پاکستان میں صرف 45 فیصد رقبے پر جنگلات پھیلے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں جنگلات کا رقبہ اس لئے بھی کم ہورہا ہے کہ یہاں پر جنگلات کو بے رحمانہ طریقے سے کاٹا جارہا ہے۔ مکانات کی تعمیر کے لئے جنگلات کی زمین کو استعمال کی جارہا ہے اور پھر ہر سال دریا بھی کٹاوّ کا کام کررہے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ جنگلات کے اگانے کے لئے مزید زمین مختص کی جائے اور درختوں کی غیر ضروری کٹائی کو بند کیا جائے۔
جنگلات کے فوائد
جنگلات کے مندرجہ ذیل فوائد ہیں۔
(۱) جنگلات ملک کے اہم وسائل میں سے ایک ہیں اور یہ اس ملک کی عمارتی لکڑی اور جڑی بوٹیوں کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔
(۲) جنگلات زمین کی زرخیزی قائم رکھنے میں مدد کرتے ہیں۔
(۳) جنگلات درجہ حرارت کو اعتدال پر رکھتے ہیں اور اطراف کے موسم کو خاص طور پر خوشگوار بناتے ہیں۔
(۴) جنگلات سے حاصل شدہ جڑی بوٹیاں ادوایات میں استعمال ہوتی ہیں۔
(۵) جنگلات جنگلی حیات کا ذریعہ اورسبب ہیں۔بے شمار جنگلی جانور یعنی شیر، چیتا، اور ہرن وغیرہ جنگلات میں پائے جاتے ہیں۔
(۶) جنگلات جلائے جانے والی لکڑی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔
(۷) جنگلات زمین کے حسن و دلفریبی میں اضافہ کرتے ہیں۔
(۸) جنگلات بہت سے وسائل کا ذریعہ اور ماخذ ہیں۔مثلاً جنگلات سے حاصل کردہ لکڑی فرنیچر، کاغذ، ماچس اور کھیلوں کا سامان تیار کرنے میں استعمال ہوتی ہیں۔
(۹) جنگلات پہاڑوں پر جمی ہوئی برف کو تیزی سے پگھلنے سے روکتے ہیں اور زمین کے کٹاو پر بھی قابو رکھتے ہیں۔
(۰۱) جنگلات انسانوں اور قدرتی نباتات کو تیز رفتار آندھیوں اور طوفان کی تباہی اور بربادی سے محفوظ رکھتے ہیں۔
(۱۱) جنگلات فضاءمیں کابن ڈائی آکسائیڈ(Carbon Dioxide) کی مقدار کو بڑھنے نہیں دیتے کیوں کہ انھیں خود اس گیس کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ آکسیجن خارج کرتے ہیں جو انسانی زندگی کے لئے لازمی ہے۔
(۲۱) بھیڑ، بکری، اونٹ جیسے حیوانات اپنی غذا ان ہی جنگلات سے حاصل کرتے ہیں۔
(۳۱) جنگلات تفریحی مقامات کے کام آتے ہیں اور لوگ ان کے خوبصورت ان حسین مناظر سے لطف اندوزہوتے ہیں۔

سوال: پاکستان کے معدنی وسائل کے نام بتائےے؟

سوال: پاکستان کے معدنی وسائل کے نام بتائےے؟ معدنیات
معدنیات قدرتی دولت ہیںجو زیرِزمین دفن ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بھرپور معدنی وسائل کی دولت سے نوازا ہے۔ یہ معدنی وسائل تیز رفتار اقتصادی اور صنعتی ترقی کے فروغ میں بہت اہم کردار ادا کررہے ہیں۔پاکستان کے اہم معدنی وسائل مندرجہ ذیل ہیں۔
معدنی تیل
دورِ جدید میں معدنی تیل ایک اہم قمتی سرمایہ ہے۔ یہ توانائی پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔ معدنی تیل خام حالت میں پایا جاتا ہے۔جس کو تیل صاف کرنے کے کارخانہ (آئل ریفائنری) میں صاف کیا جاتا ہے اور اس سے پیٹرول اور دیگر مصنوعات یعنی مٹی کا تیل، ڈیزل، پلاسٹک اور موم بتی وغیرہ حاصل کی جاتی ہیں۔ پاکستان میں ملکی ضروریات کا صرف 15 فیصد تیل پیدا ہوتا ہے بقیہ 85 فیصد حصہ دوسرے ممالک سے درآمد کرکے ملکی ضروریات کو پورا کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں تیل کے ذخائر سطع مرتفع، پوٹوہار، کھوڑ، ڈھلیاں، کوٹ میال،ضلع اٹک میں سارنگ،ضلع چکوال میں بالکسر، ضلع جہلم میں جویامیر اور ڈیرہ غازی خان میں ڈھوڈک اور سندھ میں بدین، حیدرآباد، دادو اور سانگھڑ کے علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ تیل او گیس کی تلاش کے لئے ملک میں تیل اور گیس کی ترقیاتی کارپوریشن (OGDC) بنائی گئی ہے۔ یہ ادارہ تیل کے مزید ذخائر تلاش کرنے میں کوشاں ہے۔
قدرتی گیس
صنعتوں کو رواں رکھنے کے لئے قدرتی گیس مطلوب ہوتی ہے۔ اس کو گاڑیوں میں اور گھریلو کاموں (امورِ خانہ داری) کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا استعمال بہت عام ہوگیا ہے کیونکہ یہ پیٹرول کے مقابلے میں سستی ہوتی ہے۔ملک کی توانائی کا تقریباً35 فیصد قدرتی گیس سے پورا ہوتا ہے۔ پاکستان میں گیس کے وسیع ذخائر ہیں۔ پاکستان میں قدرتی گیس سب سے پہلے 1952 میں بلوچستان میں ڈیرہ بگٹی کے قریب سوئی کے مقام پر دریافت ہوئی تھی۔اس کے بعد یہ گیس سندھ اور پوٹوہار سمیت 13 مقامات سے دریافت ہوئی۔گیس کے ذخائر کے سب سے اہم مقامات بلوچستان میں سوئی، اُچ اور زَن، سندھ میں خیرپور، مزرانی، سیری، ہنڈکی اور کندھ کوٹ اور پنجاب میں ڈھوڈک، پیرکوہ، ڈھلیان اور میال شامل ہیں۔اس وقت قدرتی گیس پائپ لائنوں کے ذریعے ملک کے مختلف علاقوں تک پہنچائی گئی ہے۔یہ گیس سیمنٹ، مصنوعی کھاد اور عمومی صنعتوں میں استعمال ہوتی ہے۔ اس کو حرارت کے ذریعے بجلی یا تھرمل بجلی پیدا کرنے میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
کوئلہ
پاکستان میں کوئلہ بہت سے مقامات پر دریافت ہوا ہے۔لیکن یہ کوئلہ بہت اچھی قسم کا نہیں ہے اور نہ ہی اس سے ملک کی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔پاکستان میں ملک کی ضرورت کا صرف 11 فیصد کوئلہ نکلتا ہے۔ پنجاب میں ڈنڈوت، مکڑوال اور پڈھ سے کوئلہ ملتا ہے۔بلوچستان میں شارگ، خوست، ہرنائی، سار، ڈیگاری، شیری اور مچھ میں کوئلہ دستیاب ہے۔سندھ میں کوئلہ کی کانیں ضلع ٹھٹھہ میں جھمپر اور ضلع جامشورو میں لاکھڑا میں ہیں۔حال ہی میں ضلع تھرپارکر (سندھ ) بہت کثیر مقدار میں کوئلہ دستیاب ہوا ہے۔ صوبہ سرحد میں گلاخیل سے بھی کوئلہ نکلتا ہے۔
خام لوہا
یہ انتہائی اہم معدن ہے جو لوہا، فولاد، مشینری اور مختلف قسم کے اوزار بنانے کے کام آتی ہے۔کالا باغ کے علاقے میں خام لوہے یا لوہے کی معدن کے سب سے بڑے ذخائر پائے جاتے ہیں۔دوسرے ذخائر ضلع ہزارہ میں ایبٹ آباد سے 32 کلومیٹر جنوب میں لنگڑبال اور چترال میں دستیات ہوئے ہیں۔بلوچستان میں خام لوہے( لوہے کی معدن)خضدار، چل غازی اور مسلم باغ میں پایا جاتا ہے۔پاکستان میں پایا جانے والا لوہا بہت معیاری اور عمدہ نہیں ہے اور یہ ملک کی صرف 16 فیصد ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ پاکستان اسٹیل ملز میں درآمد شدہ خام لوہا استعمال ہوتا ہے۔
کرومائیٹ
یہ ایک سفید رنگ کی دھات ہے جو فولاد سازی، طیارہ سازی، رنگ سازی اور تصویر کشی کے لوازمات بنانے میں کام آتی ہے۔دنیا میں کرمائیٹ کے سے سب سے بڑے ذخائر پاکستان میں ہیں۔اس کا زیادہ حصہ برآمد کرکے ذرمبادلہ کمایا جاتا ہے۔اس کے ذخائر بلوچستان میں مسلم باغ، چاغی اور خاران اور صوبہ سرحد اور آزاد قبائلی علاقوں میں مالاکنڈ، مہمند ایجنسی اور شمالی وزیرستان میں پائے جاتے ہیں۔
تانبا
تانبا برقی آلات سازی میں استعمال ہوتا ہے۔برقی تار بھی تانبے سے بنایا جاتا ہے۔بلوچستان میں ضلع چاغی میں تانبے کے وسیع ذخائر پائے جاتے ہیں۔
جپسم
جپسم سفید رنگ کا ایک چمکیلا پتھر ہے۔یہ سیمنٹ، کیمائی کھاد، پلاسٹر آف پیرس اور رنگ کا پاو�¿ڈر بنانے میں استعمال ہوتا ہے۔جپسم جن علاقوں سے حاصل ہوتا ہے۔ان میں پنجاب کے ضلع جہلم، میانوالی اور ڈیرہ غازی خان، سرحد میں کوہاٹ،سندھ میں روہڑی اور بلوچستان میں کوئٹہ، سسّی اور لورالائی شامل ہیں۔
نمک
دنیا میں معدنی نمک کے سب سے بڑے اور وسیع ذخائر پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔کوہستان نمک سطع مرتفع پوٹوہار کے جنوب میں واقع ہے۔یہ نمک بہت عمدہ اور معیاری ہے۔نمک کی سب سے بڑی کان کھیوڑو (ضلع جہلم)میں ہے۔ واڈچھا (ضلع خوشاب)، کالا باغ (ضلع میانوالی) اور بیادرخیل (ضلع کرک) سے بھی نمک حاصل ہوتا ہے۔ کراچی کے قریب ماری پور اور ساحل مکران کے علاقے میں سمندر کے پانی سے نمک حاصل کیا جاتا ہے۔
چونے کا پتھر
چونے کا پتھر زیادہ تر سیمنٹ سازی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ جب اس کو جلایا جاتا ہے تو اس سے چونا حاصل ہوتا ہے۔جو گھروں میں سفیدی کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔اس کو شیشہ ، صابن،کاغذ، رنگ کی صنعتوں میں بھی استعمال کیا جاتاہے۔چونے کے پتھر سے وسیع ذخائر ڈنڈوت (ضلع جہلم)، حیدرآبادکے قریب مغل کوٹ اور گنجو ٹکر، منگھوپیر اور رانی پور (سندھ) میں پائے جاتے ہیں۔
سنگِ مر مر
پاکستان میں مختلف اقسام اور مختلف رنگوں کا سنگِ مر مر بکثریت پایا جاتا ہے۔یہ چاغی، مردان، سوات کے اضلاع اور خیبر ایجنسی میں پایا جاتا ہے۔اپنی نزاکت و نفاست ورنگ کی بنیاد پر پاکستان کا سنگِ مر مر دنیا میں سب سے زیادہ عمدہ اورمعیاری سمجھا جاتاہے۔سیاہ و سفید سنگِ مر مر ضلع اٹک میں کالاچٹا کی پہاڑیوں سے نکلتا ہے۔ سنگِ مر مر سے ساختہ اشیاءکی برآمد سے پاکستان کی سنگِ مر مر کی صنعت ملک کے لئے کثیر زرمبادلہ کمارہی ہے۔

سوال: پاکستان کے زرعی مسائل کیا ہے؟

سوال: پاکستان کے زرعی مسائل کیا ہے؟ پاکستان کے زرعی مسائل
زراعت پاکستان کے عوام کا خاص پیشہ ہے ۔ پچپن فیصد سے زیادہ افراد زراعت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔اس کے باوجود کہ ملک میں کئی نقد آور غذائی اجناس کی فصلیں کاشت کی جاتی ہے تاہم زرعی پیداوار کی شرح بہت پست ہے۔ اس کی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں۔
(۱) پست شرح خواندگی
ملک کی شرح خواندگی بہت پست ہے۔ ہمارے کاشتکار اورکسانوں کی اکثریت غیر تعلیم یافتہ ہے اور انہیں جدید طریقوں سے آگاہی نہیں ہے۔اُنھیں جراثیم کش ادویات کے استعمال، معیاری بیجوں کے انتخاب اورمصنوعی کھاد کے مناست استعمال کے بارے میں زیادہ علم نہیں ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کی فی ایکڑ پیداوار ملک کی ضروریات کے لحاظ سے بہت کم ہے۔ وہ کاشتکاری کے صرف اُن روایتی طریقوں پر یقین رکھتے ہیں جو انھوں نے اپنے بزرگوں سے سیکھے ہیں۔
(۲) کاشتکاروں کی بڑھتی ہوئی تعداد
زراعت پر انحصار کرنے والے افرادکی تعداد بڑھ رہی ہے۔لیکن زیرِ کاشت رقبے کو بڑھانے کا عمل بہت سست ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فی کس زیرِ کاشت رقبہ کم ہوگیا ہے۔
(۳) غیر مشینی کاشتکاری
ہمارے کسان اور کاشتکار آج بھی لکڑی کے ہل، گوبر کی کھاد، غیر تصدیق شدہ مقامی بیج اور کاشتکاری کے قدیم طریقے استعمال کررہے ہیں یہی وجہ ہے کہ فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ نہیں ہورہا ہے باوجوداس کے کہ ہمارے کسان انتہائی محنتی اور جفاکش ہیں۔ لیکن ہمارے یہاں مشینی کاشتکاری اختیار نہیں کی گئی ہے۔ٹریکڑ، ٹیوب ویل، کھاد، تصدیق شدہ معیاری بیج اور بیجوں کی ایک منظم اور ترتیب، مشینی کاشتکاری کے اہم اور لازمی اجزاءہیں۔ ہمارا کسان اور کاشتکار مشینی کاشت کو اختیار کرنے میں ہچکچاہت اور تذبذب کا شکار ہے۔ اُس کی وجہ شاید پرانے خیالات یا مالی وسائل کی کمی ہے یا یہ کہ اس کے پاس بہت کم خطہ اراضی ہے۔
زرعی اراضی کی حدود
پاکستان کی زرعی اراضی کو دو گروہوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ جاگیردار اور زمین دار گروہ کے پاس زمین کے بڑے بڑے قطعات ہیں۔لیکن وہ ان میں خود کاشتکاری نہیں کرتے ہیں۔ اس لئے بہت بڑے بڑے خطہ اراضی کاشت ہونے سے رہ جاتے ہیں اور غیر آباد اور بنجر ہیں۔دوسرا گروہ وہ ہے جس کے پاس نہری پانی سے کاشت شدہ زمین ہے۔ لیکن یہ زمین 12تا 15 ایکڑ فی خاندان سے زیادہ نہیں ہے۔ وہ ان چھوٹے خطہ اراضی پر مشینی کاشتکاری اختیار نہیں کرسکتے اور مشینی کاشتکاری کے بغیر پیداوار کم ہی رہے گی۔ اسی لئے وہ دوسرے کاموں کی جانب اپنی توجہ مبذول کررہے ہیں۔ اس کا نتیجہ کم پیداوار کی صورت میں نکلتا ہے۔
محکمہ زراعت کا کردار
محکمہ زراعت کا کردار کچھ بہت موثر نہیں ہے کیونکہ ہمارے کسان اور کاشتکار کو محکمہ زراعت کے لئے دئیے ہوئے گوشواروں پر اعتماد نہیں ہے۔ کاشتکاروں کو اپنے قدیم طریقوں اور اپنے آباواجداد سے حاصل ہوئے تجربے پر اعتماد اور یقین ہے۔ دوسری جانب محکمہ زراعت کے اہل کار بھی اپنی موثر کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے ہیں۔فرائض سے غفلت برتنا، مناسب موقع پر مشورہ کا نہ ملنا اور کاشتکاروں اور کسانوں کو زرعی آگہی دینے میں سستی اور عدم دلچسپی کسانوں اور محکمے کے مابین عدم تعاون کی چند وجوہات ہیں۔اسی طرح زرعی پیداوار کو نقصان پہنچتا ہے۔
زمین کا کٹاو
بارشیں اور تباہی پھیلانے والے عوامل یعنی آندھی، طوفان، برف باری اور زلزلے زمین کے کٹاو کا سبب بنتے ہیں۔ زمین کے بالائی ذرخیز ساختی زرات کو ہٹادیتے ہیں اور نتیجہ کم پیداوار کی صورت میں نکلتا ہے۔ اراضی کو ٹکڑے کرنا اراضی کو ٹکڑے کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ زرخیز زمین چھوٹے چھوٹے قطعات میں تقسیم ہوگئی ہے جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر پیداوار محدودہوگئی ہے۔
ناکافی ذرائع نقل و حمل
ہمارے دیہات اور گاوں زرعی پیداوار کے خاص علاقے ہیں۔لیکن ان کے لئے پختہ سڑکیں موجود ہی نہیںہیںیا اگر ہیں تو ان کی حالت بہت خراب اور خستہ ہے۔ جس کی وجہ سے نقل و حمل کی تیزی میں رکاوٹ پڑتی ہے۔ پیداوار کی ایک کثیر مقدار بحفاظت منڈی تک نہیں پہنچ پاتی ہے۔اس لئے کا شتکار فصلوں کی قلیل پیداوار پر قناعت کرلیتے ہیں۔
غیر مناسب حالات
دیہات میں رہائش کے ناقص انتظام، طبیعی سہولیات کے فقدان اور دوسری ضروری سہولتوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے کاشتکاروں اور ان کے افرادِ خانہ کی صحت متاثر ہوتی ہے۔زائد پیداوار کے لئے ان کی طاقت گھٹ جاتی ہے اور اس کا بُرا اثر فصلوں کی پیداوار پر پڑتا ہے۔
فصلوں کی فروخت پر اثر
آڑھتیوں کے مختلف حربوں کی وجہ سے کاشتکاروں کو ان کی محنت اور پیداوار کا مناسب صلہ نہیں ملتا ہے۔آڑھتی اور منڈیوں پر اثر انداز ہونے والے افراد کسانوں کے لئے مشکلات پیدا کرتے رہتے ہیں۔ اس کی وجہ سے کاشتکار دل برداشتہ ہوجاتے ہیںاور اس لئے بھی وہ پیداوار بڑھانے پر ضروری توجہ نہیں دیتے ہیں۔

Twitter Delicious Facebook Digg Stumbleupon Favorites More