Friday, 11 March 2011

سوال: پاکستان کے زرعی مسائل کیا ہے؟

سوال: پاکستان کے زرعی مسائل کیا ہے؟ پاکستان کے زرعی مسائل
زراعت پاکستان کے عوام کا خاص پیشہ ہے ۔ پچپن فیصد سے زیادہ افراد زراعت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔اس کے باوجود کہ ملک میں کئی نقد آور غذائی اجناس کی فصلیں کاشت کی جاتی ہے تاہم زرعی پیداوار کی شرح بہت پست ہے۔ اس کی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں۔
(۱) پست شرح خواندگی
ملک کی شرح خواندگی بہت پست ہے۔ ہمارے کاشتکار اورکسانوں کی اکثریت غیر تعلیم یافتہ ہے اور انہیں جدید طریقوں سے آگاہی نہیں ہے۔اُنھیں جراثیم کش ادویات کے استعمال، معیاری بیجوں کے انتخاب اورمصنوعی کھاد کے مناست استعمال کے بارے میں زیادہ علم نہیں ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کی فی ایکڑ پیداوار ملک کی ضروریات کے لحاظ سے بہت کم ہے۔ وہ کاشتکاری کے صرف اُن روایتی طریقوں پر یقین رکھتے ہیں جو انھوں نے اپنے بزرگوں سے سیکھے ہیں۔
(۲) کاشتکاروں کی بڑھتی ہوئی تعداد
زراعت پر انحصار کرنے والے افرادکی تعداد بڑھ رہی ہے۔لیکن زیرِ کاشت رقبے کو بڑھانے کا عمل بہت سست ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فی کس زیرِ کاشت رقبہ کم ہوگیا ہے۔
(۳) غیر مشینی کاشتکاری
ہمارے کسان اور کاشتکار آج بھی لکڑی کے ہل، گوبر کی کھاد، غیر تصدیق شدہ مقامی بیج اور کاشتکاری کے قدیم طریقے استعمال کررہے ہیں یہی وجہ ہے کہ فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ نہیں ہورہا ہے باوجوداس کے کہ ہمارے کسان انتہائی محنتی اور جفاکش ہیں۔ لیکن ہمارے یہاں مشینی کاشتکاری اختیار نہیں کی گئی ہے۔ٹریکڑ، ٹیوب ویل، کھاد، تصدیق شدہ معیاری بیج اور بیجوں کی ایک منظم اور ترتیب، مشینی کاشتکاری کے اہم اور لازمی اجزاءہیں۔ ہمارا کسان اور کاشتکار مشینی کاشت کو اختیار کرنے میں ہچکچاہت اور تذبذب کا شکار ہے۔ اُس کی وجہ شاید پرانے خیالات یا مالی وسائل کی کمی ہے یا یہ کہ اس کے پاس بہت کم خطہ اراضی ہے۔
زرعی اراضی کی حدود
پاکستان کی زرعی اراضی کو دو گروہوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ جاگیردار اور زمین دار گروہ کے پاس زمین کے بڑے بڑے قطعات ہیں۔لیکن وہ ان میں خود کاشتکاری نہیں کرتے ہیں۔ اس لئے بہت بڑے بڑے خطہ اراضی کاشت ہونے سے رہ جاتے ہیں اور غیر آباد اور بنجر ہیں۔دوسرا گروہ وہ ہے جس کے پاس نہری پانی سے کاشت شدہ زمین ہے۔ لیکن یہ زمین 12تا 15 ایکڑ فی خاندان سے زیادہ نہیں ہے۔ وہ ان چھوٹے خطہ اراضی پر مشینی کاشتکاری اختیار نہیں کرسکتے اور مشینی کاشتکاری کے بغیر پیداوار کم ہی رہے گی۔ اسی لئے وہ دوسرے کاموں کی جانب اپنی توجہ مبذول کررہے ہیں۔ اس کا نتیجہ کم پیداوار کی صورت میں نکلتا ہے۔
محکمہ زراعت کا کردار
محکمہ زراعت کا کردار کچھ بہت موثر نہیں ہے کیونکہ ہمارے کسان اور کاشتکار کو محکمہ زراعت کے لئے دئیے ہوئے گوشواروں پر اعتماد نہیں ہے۔ کاشتکاروں کو اپنے قدیم طریقوں اور اپنے آباواجداد سے حاصل ہوئے تجربے پر اعتماد اور یقین ہے۔ دوسری جانب محکمہ زراعت کے اہل کار بھی اپنی موثر کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے ہیں۔فرائض سے غفلت برتنا، مناسب موقع پر مشورہ کا نہ ملنا اور کاشتکاروں اور کسانوں کو زرعی آگہی دینے میں سستی اور عدم دلچسپی کسانوں اور محکمے کے مابین عدم تعاون کی چند وجوہات ہیں۔اسی طرح زرعی پیداوار کو نقصان پہنچتا ہے۔
زمین کا کٹاو
بارشیں اور تباہی پھیلانے والے عوامل یعنی آندھی، طوفان، برف باری اور زلزلے زمین کے کٹاو کا سبب بنتے ہیں۔ زمین کے بالائی ذرخیز ساختی زرات کو ہٹادیتے ہیں اور نتیجہ کم پیداوار کی صورت میں نکلتا ہے۔ اراضی کو ٹکڑے کرنا اراضی کو ٹکڑے کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ زرخیز زمین چھوٹے چھوٹے قطعات میں تقسیم ہوگئی ہے جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر پیداوار محدودہوگئی ہے۔
ناکافی ذرائع نقل و حمل
ہمارے دیہات اور گاوں زرعی پیداوار کے خاص علاقے ہیں۔لیکن ان کے لئے پختہ سڑکیں موجود ہی نہیںہیںیا اگر ہیں تو ان کی حالت بہت خراب اور خستہ ہے۔ جس کی وجہ سے نقل و حمل کی تیزی میں رکاوٹ پڑتی ہے۔ پیداوار کی ایک کثیر مقدار بحفاظت منڈی تک نہیں پہنچ پاتی ہے۔اس لئے کا شتکار فصلوں کی قلیل پیداوار پر قناعت کرلیتے ہیں۔
غیر مناسب حالات
دیہات میں رہائش کے ناقص انتظام، طبیعی سہولیات کے فقدان اور دوسری ضروری سہولتوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے کاشتکاروں اور ان کے افرادِ خانہ کی صحت متاثر ہوتی ہے۔زائد پیداوار کے لئے ان کی طاقت گھٹ جاتی ہے اور اس کا بُرا اثر فصلوں کی پیداوار پر پڑتا ہے۔
فصلوں کی فروخت پر اثر
آڑھتیوں کے مختلف حربوں کی وجہ سے کاشتکاروں کو ان کی محنت اور پیداوار کا مناسب صلہ نہیں ملتا ہے۔آڑھتی اور منڈیوں پر اثر انداز ہونے والے افراد کسانوں کے لئے مشکلات پیدا کرتے رہتے ہیں۔ اس کی وجہ سے کاشتکار دل برداشتہ ہوجاتے ہیںاور اس لئے بھی وہ پیداوار بڑھانے پر ضروری توجہ نہیں دیتے ہیں۔

0 comments:

Post a Comment

Twitter Delicious Facebook Digg Stumbleupon Favorites More