This is default featured post 1 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured post 2 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured post 3 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured post 4 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured post 5 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

Wednesday, 2 March 2011

سوال: پاکستان کے زرعی وسائل کون سے ہیں؟

سوال: پاکستان کے زرعی وسائل کون سے ہیں؟

زرعی نظام
پاکستان میں سال میں دو مرتبہ بڑی فصلیں بوئی جاتی ہیں۔اکتوبر اور نومبر میں بوئی جانے والی فصل کو ربیع کی فصل کہا جاتا ہے۔اس کی کٹائی اپریل اور مئی میں ہوتی ہے۔ربیع کی فصلوں میں گندم، جوں، تیل کے بیج اور تمباکو شامل ہیں۔دوسری فصل خریف ہے جو مئی اور جون کے مہینوں میں بوئی جاتی ہے اور اکتوبر نومبر میں اس کی کٹائی ہوتی ہے۔ خریف کی فصلوں میں چاول، مکئی، کپاس، گنّا، جوار اور باجرا قابلِ ذکر ہیں۔
زرعی پیداوار
ربیع اور خریف کی فصلوں کو مزید دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے یعنی نقد آور فصلیں اور غذائی فصلیں۔ نقد آور فصلیں یہ فصلیں زرِمبادلہ کمانے کا خاص اور اہم ذریعہ ہیں ان میں مندرجہ ذیل فصلیں شامل ہیں۔
(۱) کپاس
کپاس پاکستان کی سب سے اہم نقد آور فصل ہے اور ملک کی معیشت کو بہتر اور مضبوط بنانے کا ذریعہ ہے۔ کپاس کو پاکستان کا نقدی ریشہ بھی کہتے ہیں۔کپاس زیادہ تر صوبہ پنجاب اور سندھ میں کاشت کی جاتی ہے۔ بلوچستان اور صوبہ سرحد میں صرف چند مقامات پر اور محدود پیمانے پر کپاس کاشت ہوتی ہے۔ پاکستان میں دو قسم کی کپاس کاشت کی جاتی ہے۔ایک دیہی کپاس اور دوسری امریکن کپاس۔ امریکن کپاس کا ریشہ لمبا ہوتا ہے۔ اسی لئے اس کی کاشت پر زیادہ توجہ دی جارہی ہیں کیونکہ کپاس وافر مقدار میں ملتی ہے اسی لئے ملک میں کپڑے کے کئی کارخانے لگائے گئے ہیں۔ کپڑے کے یہ کارخانے بہت ہی نفیس سوتی کپڑا، سوتی دھاگہ اور ریشہ اور دیگر سوتی اشیاءتیار کرتے ہیں۔
(۲) گنّا
گنّا بھی ایک بہت اہم نقد آور فصل ہے جو پاکستان کے چاروں صوبوں میں بویا جاتا ہے۔ لیکن اس کی پیداوار کے خاص صوبے پنجاب، سندھ اور سرحد ہیں۔گنّا شکر سازی کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔ اس کی باقیات سے کاغذ تیار کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں اپنی ضرورت سے زائد شکر پیدا ہوتی ہے جس کو برآمد کرکے قیمتی زرِمبادلہ کمایا جاتا ہے۔
(۳) تمباکو
تمباکو بھی پاکستان کی ایک نقد آور فصل ہے۔ تمباکو خاص طور سے صوبہ سرحد میں پشاور اور مردان کے اضلاع میں پیدا ہوتا ہے۔ اس کو سیگریٹ سازی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کو سگار میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ملک میں سیگریٹ سازی کی کئی بڑی فیکڑیاں کام کررہی ہیں۔ تمباکو اور اس کی مصنوعات دوسرے ممالک کو برآمد بھی کی جاتی ہیں۔
(۴) تیل کے بیج
پاکستان میں مختلف اقسام کے تیل کے بیج پیدا ہوتے ہیں۔ کپاس کی قیمتی پیداوار بنولہ سب سے اہم بیج ہے۔دیگر تیل کے بیجوں میں سرسوں کا تیل،السی اور سورج مکھی شامل ہیں۔لیکن تیل کے کے بیجوں کی پیداوار ملکی ضروریات کا مقابلہ نہیں کرپاتی۔اس لئے تیل کے بیج غیر ممالک سے درآمد کیے جاتے ہیں۔
غذائی فصلیں
یہ وہ فصلیں ہیں جو عوام کو غذا فراہم کرنے کا ذریعہ ہیں یہ غذائی فصلیں مندرجہ ذیل ہیں۔
(۱) گندم
گندم پاکستان کی بنیادی غذائی جنس ہے۔اسی سے آٹا تیار کیا جاتا ہے۔ روٹی اور دیگر غذائی اشیاءآٹے سے ہی تیار ہوتی ہیں۔گندم کی پیداوار کی تین چوتھائی حصہ صوبہ پنجاب سے حاصل ہوتا ہے۔ پنجاب کے بعد صوبہ سندھ گیہوں بکثرت پیدا کرتا ہے۔ بلوچستان اور صوبہ سرحد بھی گیہوں پیدا کرتے ہیں۔ مگر ان کی پیداوار پنجاب اور سندھ کے مقابلے میں کم ہے۔گندم میں پاکستان کی خود کفالت کا انحصار پانی کی فراہمی پر ہے۔جب قدرت مہربان ہوتی ہے تو ضرورت سے زیادہ گندم پیدا ہوتی ہے۔ بعض اوقات گندم غیر ممالک سے درآمد کی جاتی ہے۔ گندم ہماری روزمرہ کی غذا کا ایک انتہائی اہم جز ہے۔
(۲) چاول
گندم کے بعد چاول پاکستان کی دوسری اہم غذائی جنس ہے۔پاکستان عمدہ چاول کی پیداوار میں نہ صرف خود کفیل ہے بلکہ اس کو دوسرے ممالک میں برآمد بھی کیا جاتاہے۔چاول کی کاشت پنجاب اور سندھ کے نہری علاقوں میں ہوتی ہے کیوں کہ اس کی کاشت کے لئے وافر مقدار میں پانی درکار ہوتا ہے۔گوجرانوالہ، سیالکوٹ ، شیخوپورہ ، سرگودھا اور ساہیوال چاول کی پیداور کے لئے بہت اہم ہیں ۔ سندھ میں سکھر ، شکارپور ، لاڑکانہ اور دادو چاول کی کاشت کے لئے مشہور ہیں۔چاول پنجاب اور سندھ کے لوگوں کی غذا کا ایک اہم جز ہے۔ صوبہ سرحد کے بھی کچھ علاقوں میں چاول کی کاشت ہوتی ہے۔ پاکستان میں یوں تو کئی قسم کا چاول ہوتا ہے لیکن ان میں دو قسمیں اہم ہیں یعنی باسمتی چاول اور آئی آر آر آئی (IRRI) چاول ہے۔ جو بین الاقوامی تحقیقی ادارہ برائے چاول منیلا کا منتخب ہے۔چاول کی کاشت کے لئے رقبے کا تقریباً 70 فیصد ان ہی دو قسموں کے لئے مختص ہے۔پاکستان میں چاول کی پیداوار میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان چاول کی پیداوار میں نہ صرف خود کفیل ہے بلکہ باسمتی چاول برآمد بھی کرتا ہے۔
(۳) مکئی
مکئی غذائی فصل ہے۔لیکن جانوروں کے چارے کے طور پر بھی استعمال ہوتی ہے۔اس کی سب سے زیادہ کاشت صوبہ سرحد میں ہوتی ہے جہاں مردان، ایبٹ آباد، مانسہرہ، سوات اور پشاور کے اضلاع خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ صوبہ پنجاب میں فیصل آباد اور ساہیوال کے اضلاع مکئی کی کاشت کے لئے مشہور ہیں۔
(۴) جوار اور باجرا
غذائی اجناس کے حصول کے لئے جوار اور باجرا کو کاشت کیا جاتاہے۔ اس سے سبز اور خشک کھاس بھی پیدا ہوتی ہے۔جو بہت سے جانوروں کے لئے چارے کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔یہ خریف کی فصلیں ہیں۔جن کی کاشت ایسے علاقوں میں بھی ہوسکتی ہے۔ جہاں مٹی زیادہ اچھی نہیں ہے اور جو خشک سالی کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ان کی کاشت پنجاب اورسندھ تک محدود ہے۔صوبہ پنجاب میں اٹک، گجرات، سیالکوٹ اور سرگودھا کے اضلاع میں باجرے کی کاشت نسبتاً زیادہ ہوتی ہے۔ سندھ کے اضلاع عمر کوٹ، تھرپارکر اور میرپورخاص باجرے کی پیداوار کے لئے پاکستان میں سرفہرست ہیں۔جوار کی کاشت کے لئے بھی پنجاب کے شمالی اضلاع یعنی اٹک، راولپنڈی، جہلم اور سرگودھا مشہور ہیں۔ سندھ میں سکھر، خیرپور، نواب شاہ، نوشہرہ فیروز، سانگھڑ اور دادو کے اضلاع جوار کی کاشت کے خاص علاقے ہیں۔
(۵) دالیں
ملک میں مختلف قسم کی دالیں بھی کاشت کی جاتی ہیں۔ ان دالوں میں سرفہرست چنا ہے۔ اس کی کاشت کے لئے میانوالی اور سرگودھا کے بارانی علاقے اہم مراکز ہیں۔صوبہ سرحد میں بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کے اضلاع میں بڑے پیمانے پر چنے کی کاشت ہوتی ہے۔ دوسری دالیں مثلاً مونگ، مسور، ماش کی کاشت بھی ملک کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں پنجاب میں زیادہ ہوتی ہے۔
(۶) جو (جئی)
جو یا جئی کی کاشت بہت وسیع علاقے میں نہیں ہوتی ہے۔ یہ ملک کے کم زرخیز اور خشک علاقوں میں بویا جاتا ہے۔عام طور سے غریب لوگ اس کو استعمال کرتے ہیں۔اس کو جانوروں کے چارے کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
(۷) پھل اور سبزیاں
مختلف سبزیاں مقامی طور اور مقامی ضروریات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اُگائی جاتی ہیں۔یہ پورے ملک میں کاشت کی جاتی ہیں۔اہم سبزیوں اور ترکاریوں میں آلو، شلجم، ٹماٹر، بھنڈی، بینگن، پالک، پیاز، مولی، مٹر، چقندر، بند گوبھی اور گاجر وغیرہ شامل ہیں۔سبزی اور ترکاری کی پیداوار میں پاکستان خود کفیل ہے۔ پاکستان آلو اورپیاز دوسرے ممالک کو برآمد بھی کرتا ہے۔ پاکستان میں بے شمار اقسام کے بہت خوش ذائقہ پھل پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن آب و ہوا کے فرق کی وجہ سے یہ مخصوص علاقوں میں کاشت کیے جاتے ہیں۔بلوچستان اور صوبہ سرحد پھلوں کی پیداوار کے خاص علاقے ہیں۔ ان کے پھلوں میں انگور، سیب، انار، آلو بخارہ، منقّیٰ، خوبانی، آڑواور چیری شامل ہیں۔ سندھ میں پھلوں کی صرف چند اقسام ہیں۔ جن میں آم، کھجور، کیلا، تربوزاورخربوزہ ہیں۔پنجاب میں آم، موسمّی، مالٹے، کینو، مشک، سردا، گرما، تربوزاور کھجوریں کاشت کی جاتی ہیں۔صوبہ سرحد اور بلوچستان میں خشک میوہ جات، مثلاً بادام، پستہ اور اخروٹ کاشت کئے جاتے ہیں۔ تازہ پھلوں اور خشک میوہ جات کی برآمد سے پاکستان کثیر زرِمبادلہ کماتا

سوال: ایٹمی (نیو کلیائی) توانائی پر ایک نوٹ لکھئے؟

سوال: ایٹمی (نیو کلیائی) توانائی پر ایک نوٹ لکھئے؟
جوہر توانائی (ایٹمی یانیو کلیائی توانائی)
توانائی کا ایک اور ذریعہ جوہری (ایٹمی) طاقت یا مرکزائی (نیو کلیائی) توانائی ہے۔ بھورے رنگ کا ایک تابکار عنصر یورینیم جوہری یا ایٹمی توانائی پیدا کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ پاکستان میں دو جوہری (ایٹمی) بجلی کام کررہے ہیں۔ ایک کراچی میں ہے جس نے 1971 میںبجلی پیدا کرنا شروع کی تھی اور دوسرا چشمہ (میانوالی) میں ہے۔ چشمہ پلانٹ نے2002 میں بجلی پیدا کرنا شروع کی ہے۔اس کی پیداواری صلاحیت 300 میگا واٹ ہے۔ جوہری طاقت کا تیسرا منصوبہ بھی چشمہ کے مقام پر چین کے تعاون سے زیرِ تعمیر ہے۔ جوہری بجلی گھروں کو اس لئے فوقیت دی جاتی ہے کیوںکہ ان سے صارفین کو سستی بجلی مہیا ہوتی ہے۔ جوہری توانائی کو پرامن مقاصد کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اس کو زرعی تحقیق کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لئے تین مراکز فیصل آباد (پنجاب)، پشاور (صوبہ سرحد) اور ٹنڈوجام (سندھ) میں زرعی اور غذائی تحقیق کے لئے قائم کئے گئے ہیں۔ ان کے علاوہ صوبہ سرحد میں قومی ادارہ برائے غذا اورزراعت (NIFA) بھی کام کررہا ہے۔ سرطان (کینسر) کے علاج کے لئے بھی جوہری توانائی کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لئے کراچی، جام شورو، لاڑکانہ، لاہور، ملتان، بہاولپور، اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ، فیصل آباد اور ایبٹ آباد میں واقع جوہری توانائی کے ادارے کام کررہے ہیں۔

سوال: انسانی وسائل اور دیگر وسائل کس طرح ایک دوسرے پر منحصر ہیں؟

سوال: انسانی وسائل اور دیگر وسائل کس طرح ایک دوسرے پر منحصر ہیں؟

انسانی وسائل اور دیگر وسائل کا باہمی انحصار انسانی وسائل اور دیگر وسائل کی اپنی اپنی جگہ آزادانہ اور علیحدہ قدروافادیت ہے۔ لیکن یہ سب وسائل باہم ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں اور ان کا ایک دوسرے پر دارومدار ہے۔ زندگی گزارنے کے لئے انسانوں کی بے شمار ضروریات ہیں۔ ان میں زندگی کی بنیادی ضروریات یعنی روٹی، کپڑا اور مکان (غذا، چادر اور چار دیواری) شامل ہیں۔اسی طرح چند سہولتیں اور آسائشیںبھی انسانی ضروریات کا حصہ ہیں۔ مگر ان کا شمار بنیادی ضروریاتِ زندگی کے بعد ہوتا ہے۔یہ ضروریات صرف دوسرے وسائل کی مدد سے ہی پوری ہوسکتی ہیں۔ ان وسائل میں زرعی اورمعدنی وسائل شامل ہیں۔ ان وسائل کو تلاش کرنے اور ان سے فیضیاب ہونے کے لئے انسانی کوشش اور جدوجہد کا بڑا عمل دخل ہے۔ اگر انسانی علم، مہارت و ہنر مندی اورمحنت و جفاکشی کو خارج کردیا جائے تو ان وسائل کے ثمرات کبھی بھی حاصل نہیں ہوسکتے۔چونکہ انسان نے تیل، گیس اور سونے کے وسائل کو تلاش کیا اور اُنھیں نفع بخش طور پر استعمال کیااسی لئے یہ دولت اور سرمایہ بن گئے اور ان کی قدرمیں اضافہ ہوا ہے۔ دوسری جانب ان وسائل کے بغیر انسانی زندگی بے رنگ اور بے مزہ ہوتی یا شاید انسانی بقاءہی ناممکن ہوجاتی۔ اس لئے انسانی وسائل اور دیگر وسائل کا ایک دوسرے پر دارومدار ہے۔

سوال: زندگی میں اعتدال پسندی پر ایک نوٹ لکھیئے؟

سوال: زندگی میں اعتدال پسندی پر ایک نوٹ لکھیئے؟

زندگی میں اعتدال پسندی زندگی میں اعتدال پسندی کامطلب یہ ہے کہ اپنے موجودہ وسائل کے اندر رہا جائے (چادر کے مطابق پاوں پھیلائے جائیں) ایک قول ہے کہ چیز کی کثرت بُری ہوتی ہے۔ اعتدال پسندی مناسب سوچ، رویے اور عمل کے ایک طریقے کا نام ہے۔ اُس شخص کواعتدال پسند کہا جاسکتا ہے جو ذاتی احتساب کرتا ہو اور پھر اپنے مستقل کی زندگی کے لئے ایک لائحہ عمل طے کرتاہو۔ جولوگ اپنی زندگی اعتدال کے مطابق نہیں گزارتے ہیں وہ شدید تکلیف اور مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اعتدال پسندی زندگی کے تمام معاملات یعنی اقتصادی سماجی اور سیاسی معاملات میں معقول اور سُلجھے ہوئے رویہ کا تقاضہ کرتی ہے۔ اعتدال پسندی سے معاشرے میں امن و خوشحالی آتی ہے۔ بے جا خواہش پرستی ہی تمام بُرائیوں کی جڑ ہے لیکن اعتدال کی راہِ عمل اختیار کرنے سے انسان پُر سکون اور آرام دہ زندگی گزارتا ہے۔ بحیثیت قوم پاکستانی بہت جذباتی ہیں۔ کسی بھی معاملے میں یا تو ہم پوری طرح شریک ہوجاتے ہیں یا ہم بالکل پرواہ نہیں کرتے۔ جس کا نتیجہ ہمارے اپنے فرائض سے غفلت اور بے اعتمادی کی صورت میں نکلتا ہے۔اسی رویہ نے معاشرے کو پسماندہ رکھا ہوا ہے۔ ہمارے انتہائی شدید جذبات اور احساسات نے ہمیں جذباتی قوم کاخطاب دلوادیا ہے۔ کبھی کبھار جذبات عارضی اور وقتی کامیابی کا باعث تو بن سکتے ہیں لیکن طویل مدت میں ان کا نتیجہ مختلف بھی نکل سکتا ہے۔ یہ سب لوگوں کے علم میں ہے کہ اپنے وسائل کے اندر رہنا خوشحالی کی ضمانت ہے۔ جو لوگ اپنی خواہشات پر قابو رکھتے ہیں اور خود کو روک کر رکھتے ہیں وہ خوشحال زندگی گزارتے ہیں۔ پھر خیال رکھیں کہ ضرورت سے زیادہ مداخلت کرنے والی قوم اپنے شدت پسند اصولوں اور سرگرمیوں کی وجہ سے ہمیشہ دشورایوں اور مشکلات کا شکار رہتی ہے۔ اسی لئے اسلام نے تمام شعبہ ہائے حیات میں اعتدال کا درس دیا ہے اورخود پر یعنی اپنے نفس پر قابو پانے کے ضرورت پر زور دیا ہے۔

سوال: صنعت سے کیا مراد ہے؟

سوال: صنعت سے کیا مراد ہے؟

صنعت
فیکٹریوں میں مشین کے ذریعے تیار ہونے والی اشیاءکے کام اور طریقہ عمل کو صنعت کہتے ہیں۔وسیع تر مفہوم میں صنعت کے معنی یہ ہیں کہ خام مال سے ایسی اشیاءتیار کی جائیں جن کی انسانوں کے لئے کچھ افادیت ہو۔ تہذیب و تمّدن کے ابتدائی دور میں صنعت جدید دور کی صنعت کے مقابلے میں انتہائی سادہ اور نسبتاً پست سطح کی تھی۔ اس طرح صنعت کا آغاز پست سطح سے ہی ہوا تھا۔لیکن یہ آہستہ آہستہ پروان چڑھتی گئی اور اب صنعت پیداوار کا ایک بہت بڑا شعبہ اور حصہ ہے۔ کئی مختلف صنعتیں ضم ہوکر ایک اکائی بن گئی ہیں۔اس میں بڑے پیمانے پر مال کی تیاری سے پیداواری لاگت کم ہوگئی

سوال: قومی ترقی کی تعریف کیجئے؟

سوال: قومی ترقی کی تعریف کیجئے؟
قومی ترقی کی تعریف
اقتصادی اور سماجی شعبوں میں ترقی کا عمل قومی ترقی کہلاتا ہے۔ وسائل دریافت کئے جاتے ہیںاور پھر اُن کو عوام الناس کے زیادہ سے زیادہ فائدے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔عوام کا جو معیارِ زندگی ہوتا ہے۔ وہ معاشی اور سماجی تحفظ کی حمایت کرتا ہے۔دوسرے الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ قومی ترقی انسانی اور قدرتی وسائل کی قوت اور استحکام کی عکاس ہوتی ہے۔جن کی بدولت زندگی انتہائی سہل اور پُر آسائش ہوجاتی ہے۔

سوال: پاکستان میں کپاس اور شکر سازی کی صنعت پر نوٹ لکھیئے؟

سوال: پاکستان میں کپاس اور شکر سازی کی صنعت پر نوٹ لکھیئے؟

کپڑے کی صنعت
یہ صنعت پاکستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔پاکستان میں کثیر تعداد میں کپڑے کے بڑے اور چھوٹے کارخانے ہیں۔ان کارخانوں میں بہت نفیس اقسام کے کپڑے تیار کیے جاتے ہیں۔پاکستان سوتی کپڑے کی صنعت میں خودکفیل ہوگیا ہے۔ہر سال سوتی کپڑوں اور دھاگے کی برآمد سے کروڑوں روپے زرِمبادلہ کمایا جاتا ہے۔سوتی کپڑے کی صنعت کے اہم مراکز پنجاب میں فیصل آباد، لاہوراور ملتان ہیں۔سندھ میں کراچی اور حیدر آباد ہیں۔صوبہ سرحد میں یہ مراکز پشاور، ڈیرہ اسماعیل خان، نوشہرہ، بنوں، ہری پور، اور سوات میں واقع ہیں۔ بلوچستان میں کپڑے کی صنعت کے دو مراکز اُتھل اور کوئٹہ ہیں۔ پاکستان کے صنعتی مزدوروں کی تقریباً پچاس فیصد تعداد سوتی کپڑے کی صنعت سے وابستہ ہیں۔ پاکستان کی آزادی کے وقت ملک میں سوتی کپڑے کے صرف تین کارخانے تھے۔اُس کے مقابلے میں اب کپڑے کے تقریباً 500 کارخانے موجود ہیں۔ پاکستان میں اونی کپڑے کی صنعت بھی پائی جاتی ہے۔لیکن یہ سوتی کپڑے کی صنعت کے مقابلے میں کم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں پائی جانے والی اون بہت اعلیٰ معیار کا نہیں ہے۔ اسی لئے ہماری اون کا زیادہ تر حصہ قالین سازی میں استعمال ہوتا ہے۔ پاکستان میں اونی کپڑے کے لئے بڑے کارخانے کے مراکز سندھ میں کراچی، پنجاب میں لاہور اور قائدآباد، بلوچستان میں ہرنائی، مستونگ اور سرحد میں بنوں اور نوشہرہ میں واقع ہیں۔جہاں اونی کپڑا کمبل اور اونی دھاگہ تیار ہوتا ہے۔اس وقت پورے ملک میں اونی کپڑے کے تقریباً 70 کارخانے ہیں۔ پاکستان میں ریشمی کپڑے کی صنعت بھی ہے۔ ریشمی کپڑا بنانے کے لئے دو اقسام کے ریشم استعمال کئے جاتے ہیں۔ پہلا قدرتی ریشم جو ریشم کے کپڑوں سے حاصل ہوتا ہے۔قدرتی ریشم ناپید ہوتا جارہا ہے۔ اس لئے کہ یہ اب بہت زیادہ گراں ہوگیا ہے۔ اس کی جگہ اب مصنوعی ریشم مقبولیت حاصل کرتا جارہا ہے۔لاہورکے قریب ایک بستی کالاشاہ کاکو میں ایک ریشم کا کارخانہ کام کررہا ہے۔جہاں مصنوعی ریشم تیار ہورہی ہے۔ اس کو ریان کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ خام ریشم اور ریشمی دھاگہ اور ریشہ بیرونی ممالک سے بھی درآمد کیا جاتا ہے۔ کراچی ریشمی کپڑے کی صنعت کا سب سے بڑا مرکز ہے۔اس کے علاوہ ریشمی کپڑا فیصل آباد، لاہور، ملتان، گوجرانوالہ، پشاور، سوات، سکھر اور حیدر آباد میں بھی تیار کیا جاتا ہے۔
چینی کی صنعت
یہ ملک کی بڑھتی ہوئی صنعتوں میں سے ایک ہے۔ 1947 میں پاکستان نے چینی کے صرف دو کارخانوںسے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ ایک کارخانہ صوبہ پنجاب میں گوجرانوالہ کے نزدیک راہوالی میں اور دوسرا صوبہ سرحد میں تخت بائی کے مقام پر تھا۔چینی گنّے سے حاصل کی جاتی ہے۔ جو تین صوبے یعنی پنجاب، سندھ اور سرحد میں بڑی مقدارمیں کاشت کیا جاتا ہے۔اس لئے حکومت نے ان علاقوں میں چینی کے کارخانے لگانے کا فیصلہ کیا جہاں گنّا کاشت کیا جاتا ہے۔ ملک میں 78 چینی کے کارخانے ہیں۔جن میں 40 پنجاب میں، 32 سندھ میں اور 6 سرحد میں ہیں۔جن کی پیداوار کی صلاحیت 5 ملین ٹن ہے۔شکر کی پیداوار میں پاکستان نہ صرف خود کفیل ہے بلکہ چینی کی برآمد سے قیمتی زرِمبادلہ بھی کمایا جاتا ہے۔پاکستان کی شکر اعلیٰ معیار کی ہوتی ہے۔

سوال: قومی ترقی میں ذرائع آمد و رفت کس طرح مدد کرتے ہیں؟

سوال: قومی ترقی میں ذرائع آمد و رفت کس طرح مدد کرتے ہیں؟
ذرائع نقل و حمل و آمد و رفت کے معنی و مفہوم ذرائع آمد و رفت سے مراد وہ ذرائع ہیں جن کی بدولت افراد سفر کرتے ہیںاور اشیاءکو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے ہیں۔یہ ذرائع قدیم بھی ہیں اور جدید بھی۔ قدیم ذرائع آمدورفت میں سڑکیں اور بحری سفر شامل ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کے ساتھ ہی ذرائع آمدورفت بہت بہتر ہوگئے ہیں۔موٹر کاروںنے گاڑیوں اور جانوروں کی جگہ لے لی ہے۔کشتیوں کی جگہ جدید بحری جہاز آگئے ہیں اور اب فضا کے ذریعے بھی سفرمقبول ہوتا جارہا ہے۔
ذرائع آمدورفت کی اہمیت
کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے ذرائع آمدورفت کی بہت اہمیت ہے۔ یہ معاشی ترقی میں مدد دیتے ہیں۔ ان کی مدد سے خام مال کارخانوں تک پہنچایا جاتا ہے اور تیار مال منڈیوں تک لے جایا جاتا ہے۔ ان سے بیروزگاری میں کمی واقع ہوتی ہے کیونکہ لوگ دوردراز کے مقامات پر بھی ملازمت کرسکتے ہیں اور بکثرت سفر کرسکتے ہیں۔مختصراً یہ کہ ذرائع آمدورفت مندرجہ ذیل مقاصد میں مدد کرتے ہیں۔
(۱) ملک کی زراعت اور صنعت کو فروغ دینا۔
(۲) مقامی، قومی اور بین الاقوامی تجارت کو فروغ دینا۔
(۳) لوگوں کے ملک کے مختلف علاقوں میں سفر سے اتحاد اور قومی اور بھائی چارے کو پروان چڑھانا۔
(۴) مسلح افواج کی تیز رفتار حرکت سے ملک کے دفاع کو مضبوط اور مستحکم کرنا۔
(۵) علوم و فنون کو فروغ دینا اور ان کے فائدے ملک کے دوسرے حصوں تک پہنچانا۔
(۶) ملک میں امن و امان برقرار رکھنے میں مدد کرنااور سیلاب، زلزلہ اور آگ لگ جانے جیسی قدرتی آفت کی صورت میںجلد

سوال: کراچی سے پشاور تک قومی شاہراہ پر کون سے شہر واقع ہیں؟

سوال: کراچی سے پشاور تک قومی شاہراہ پر کون سے شہر واقع ہیں؟

قومی شاہراہ
یہ پاکستان کی سب سے قدیم اور سب سے اہم شاہراہ ہے۔ اس کی لمبائی 1735 کلو میٹر ہے۔ یہ کراچی سے شروع ہوکر پشاور اور تورخم تک جاتی ہے۔ یہ شاہراہ اس سڑک پر واقع مختلف شہروں مثلاً حیدرآباد، خیرپور، سکھر، بہاولپور، ملتان، لاہور، راولپنڈی اور پشاور کو آپس میں ملاتی ہے۔
(۱) کراچی، کوئٹہ شاہراہ براستہ خضدار
(۲) کراچی، کوئٹہ شاہراہ براستہ جیکب آباد
(۳) کوئٹہ،پشاور شاہراہ
(۴) کوئٹہ، ملتان شاہراہ براستہ لورالائی
(۵) اٹک، ملتان شاہراہ
(۶) شاہراہِ علاقائی تعاون برائے ترقی (آر سی ڈی ہائی وے)
(۷) شاہراہ انڈس ہائی وے
(۸) کراچی، حیدرآباد سپر ہائی وے
(۹) لاہور، اسلام آباد موٹروے

سوال: ای تجارت کے کیا معنی ہیں؟

سوال: ای تجارت کے کیا معنی ہیں؟
ای کامرس
یہ انگریزی لفظ الیکٹرانک کامرس سے نکلا ہے۔اسکے معنی ہیں کہ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی مدد سے تجارت کرنا۔ الیکٹرانک تجارت کے ذریعے معلاملات بہت جلدی طے ہوجاتے ہیں۔الیکٹرانک تجارت اطلاعی خفیت (انفارمیشن ٹیکنالوجی) کی ایک شاخ ہے۔ اس سے کاروباراور تجارت کا تازہ ترین درست ریکارڈرکھنے میں مدد ملتی ہے۔ یہ ہماری درآمدات اور برآمدات کے لئے بھی سہولت مہیا کرتی ہے۔پاکستان میں اب ای تجارت اپنی بنیادیں مضبوط کررہی ہے۔ای تجارت کے ذریعے دنیا کے صفِّ اوّل کے تجارتی اداروں سے ان کی ویب سائٹ کے توسط سے رابطہ کیاجاسکتا ہے اور ان کے فراہم کردہ ساما ن کی تفصیلات، ان کی قیمتیں، مقدار اور ان کے سامان کی رسد کے وقت کی دریافت کی جاسکتی ہے۔ادائیگیاں انٹرنیٹ کے ذریعے کی جاسکتی ہیں۔ پاکستان میں گھر بیٹھے نیویارک، سنگا پور، ہانک کانگ، لندن وغیرہ کے اسٹاک ایکسچینج سے حصص خریدے اور فروخت کئے جاسکتے ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ ان کے پاس اکائنٹ کھولا ہوا ہو۔ای تجارت نے کاروبار کو تیز رفتار، سہل اور بہتر بنادیا ہے۔

سوال: پاکستان میں صنعتی ترقی کے فروغ کے لئے کیا اقدامات اُٹھائے جائیں؟

سوال: پاکستان میں صنعتی ترقی کے فروغ کے لئے کیا اقدامات اُٹھائے جائیں؟

صنعتی ترقی کے لئے اقدامات
مندرجہ ذیل اقدامات سے صنعتی ترقی کو فروغ دینے میں مدد مل سکتی ہے۔
(۱) ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر بنائی جائے تاکہ سرمایہ کار جان و مال کھوجانے کے ڈر سے آزاد ہوکر سرمایہ کاری کرسکے۔
(۲) تجارت کے لئے قائدے اور قوانین آسان اور سہل بنائے جائیں۔
(۳) عملے کی تربیت کے دوران محنت کی عظمت کا احساس اُجاگر کیا جائے تاکہ ان میں کام سے وابستگی کا احساس ہو اور پیداوار بڑھنے کے لئے وہ سخت محنت کریں۔
(۴) کوالٹی کنٹرول کا سخت نظام قائم کیا جائے تیار شدہ مال کے معیار اور اعلیٰ و صف پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چایئے۔
(۵) بازار کاری (مارکیٹنگ) اور تجارتی نظم و نسق (بزنس ایڈمنسٹریشن) کی تعلیم کا معیار مزید بہتر بنایا جائے۔
(۶) صنعتی پالیسیاں بالکل صاف،شفاف، واضح اور پائیدار ہونی چاہئےں۔
(۷) بیرونی ممالک کی اشیاءکی اسمگلنگ پر سختی ہونی چاہئے۔
(۸) حکومت کو صنعت کاروں کی ٹیکسوں میں رعایت، بہتر پیداوار کے لئے زرِتلافی (سبسڈی) اور کارکنان کی تربیت کی شکل میں ترغیبات دینی چاہئیں۔
(۹) کارکنوں کے حالات کار بہتر بنائے جائیں اور ان کی اجرتیں بڑھائی

ثقافت کی خصوصیات بیان کیجئے؟

: ثقافت کی خصوصیات بیان کیجئے؟ ثقافت کے معنی اور مفہوم

ثقافت کے لفظی معنی ہیں ”کچھ اُگانا۔“ اس کو ”طرزِ زندگی“ بھی کہا جاتا ہے۔کسی بھی قوم کی ثقافت میں بہت سے عوامل شامل ہوتے ہیں۔اس میں طرزِ زندگی، زبان، ادب، مذہب، رسوم و رواج، نظریہ حیات،عمارت سازی اور فنونِ لطیفہ شامل ہیں۔ثقافت کے یہ تمام پہلو ساتھ ساتھ بڑھتے اور پروان چڑھتے ہیں۔ثقافت کا ہر ایک پہلو اور عنصر قوم کے ماضی اور حال کا عکاس ہوتا ہے۔جغرافیائی حالات اور ماحول کا بھی قوم کی ثقافت پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ حالات اور ماحول میں زمین، آب و ہوا، نباتات، معدنی وسائل اور حیوانات بھی شامل ہیں۔ ثقافت کی خصوصیات
(۱) تاریخ اور نظریے کی عکاسی
ہر ثقافت کا اپنا مخصوص مزاج ہوتا ہے۔ جو ایک تہذیب اور ثقافت رکھنے والوں کو دوسروں سے ممتازکرتا ہے۔ یہثقافت کسی قوم یا ملک کی تاریخ اور نظریے کے تسلسل کی عکاسی کرتی ہے۔
(۲) دوسری ثقافتوں پر اثرانداز
ثقافت ایک قوت ہے۔ جو دوسروں کو متاثر کرتی ہے۔ مثبت سوچ و فکر کی حامل ثقافت جلد ہی دوسری ثقافتوں پر اثر انداز ہوجاتی ہے۔
(۳) ثقافت میں تبدیلی
دوسری ثقافتوں سے ملاپ اور رابطے کی صورت میں ثقافت کے مظاہر میں تبدیلی آسکتی ہے۔ایک وقت تھا کہ مسلم ثقافت نے دنیا کی دوسری ثقافتوں کو متاثر کیا تھا۔ ثقافتی سوچ و فکر کی قوت اس وقت تک پرُاثر رہتی ہے جب تک لوگوں کا کردار اس ثقافت پر یقین اور اعتماد کا اظہار کرتا رہتا ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ تبدیلی اور دوسری ثقافتوں کے ساتھ ملاپ کے عمل سے گذر کر نئی ثقافت وجود میں آتی ہے۔
(۴) انفرادی شناخت اور پہچان
کسی بھی ثقافت کی اپنی انفرادی شناخت اور پہچان اس کو دوسروں میں مقبول بناتی ہے۔ماضی میں مسلم ثقافت اس لئے بام عروج پر پہنچی تھی کیونکہ ہر مسلمان اپنے ذاتی کردار اور اقدار میں بہت توانا اور مستحکم تھا۔
(۵) توانا اقدار
ہر ثقافت کی چند بڑی توانا اقدار ہوتی ہیں۔ توانا، مستحکم اور مستقل اقدار کی حامل ثقافت دوسری ثقافتوں کو خود میں جذب کرلیتی ہے۔جس طرح مسلم ثقافت نے اُس وقت کیا جب مسلمانوں نے کئی دوسرے ممالک کو فتح کرلیا تھا۔ان ثقافتوں کے مسلم ثقافت میں جذب ہونے کی وجہ اسلام کی توانا، پائیدار اور مستقل اقدار تھیں۔

سوال: کوئی زبان ثقافت کا اہم حصّہ کیوں ہے؟

سوال: کوئی زبان ثقافت کا اہم حصّہ کیوں ہے؟
زبان ثقافت کا سب سے اہم جز ہے۔ کیونکہ خیالات، احساسات، اور جذبات کے اظہار کے لئے زبان ہی موثر ترین ذریعہ ہے۔زبان قوم کی شناخت ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ ہر قوم اپنی زبان کو عزیز رکھتی ہے اور اسکے فروغ و ارتقاءکے لئے مناسب اقدامات کرتی ہے۔
دنیا میں ایسے بہت سے ممالک ہیں جہاں ایک سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ کسی ملک میں بولی جانے والی تمام زبانیں اُس ملک کی ثقافت کا حصّہ ہوتی ہے۔البتہ اِن میں سے کسی ایک زبان کو قومی رابطہ کے زبان (Lingua Franka)کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور اسی کو قومی زبان کہتے ہیں۔
قومی زبان کے ذریعے مختلف علاقوں کے رہنے والوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں مدد ملتی ہے۔ یہ اتحاد اور قومی یکجہتی کو فروغ دینے کاایک ذریعہ ہے۔قومی زبان کو ملک کی دوسری زبانوں پر فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ لیکن اس مطلب یہ نہیں کہ دوسری زبانوں کو پسِ پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ علاقائی زبانوں کو کسی صورت میں بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ تمام صوبائی زبانیں قوم کا مجموعی اثاثہ ہیں جو کہ اپنے اپنے مخصوص

سوال: پاکستان کی قومی زبان پر نوٹ لکھیں؟

سوال: پاکستان کی قومی زبان پر نوٹ لکھیں؟

پاکستان میں 30 سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں۔ہمارے ملک کی بڑی صوبائی زبانیں سندھی، پنجابی، پشتو اور بلوچی ہے۔یہ زبانیں زیادہ تر اپنے اپنے علاقوں کی نمائندگی کرتی ہیں اور انھیں صوبائی زبانیں کہا جاتا ہے۔ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے جو لب و لہجے کے معمولی فرق کے ساتھ پاکستان کے تمام علاقوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔
اردو
اردو ہمارے ثقافتی ورثے کا حصّہ ہے۔ اب سے تقریباً تین ہزار سال قبل لوگ وسط ایشیاءسے آکر جنوبی ایشیاءکے شمالی حصّے میں آباد ہوگئے تھے۔جیسے ہی ان کی تعداد میں اضافہ ہوا انھوں نے رفتہ رفتہ یہاں کے قدیم باشندوں کو جنوب کی جانب دھکیل دیا اور یہ لوگ سنسکرت سے بگڑی ہوئی زبان پراکرت بولتے تھے جو عام لوگوں کی زبان کہلانے لگی۔ تقریباً پندرہ سو سال تک عام لوگ پراکرت بولتے رہے۔راجہ بکرماجیت نے سرکاری اور ادبی کاموں کے لئے ایک بار پھر
سنسکر ت زبان رائج کردی۔ لیکن عوام کی زبان پر پراکرت ہی رہی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پراکرت زبان نے چار منفرد اور نمایاں شکلیں اختیار کرلیں اور ان ہی مقامی شکلوں میں سے ایک شکل ”برج بھاشا“ کہلائی۔یہ زبان دریائے گنگا اور جمنا کے درمیان اور ان کے اطراف کے علاقوں میں بولی جاتی تھی۔
مسلمانوں کے مختلف خاندانوں نے برّ صغیر جنوبی ایشیاءپر حکومت کی۔پہلے یہاں مسلمانوں کی اور پھر مغلوں کی حکومت قائم ہوئی۔ان لوگوں کی زبان فارسی تھی۔
مغلوں کے دورِ حکومت میں کئی یورپی اقوام جنوبی ایشیاءمیں کسی نہ کسی مقصد سے آئیں۔اس طرح کچھ فرانسیسی اور پرتگالی الفاظ بھی برج بھاشا میں شامل ہوگئے اور یوں شاہ جہاں (1627ءتا 1658ئ)کے عہد میں برج بھاشا داخلی طور پر بدل گئی اور یہ ایک نئی زبان معلوم ہونے لگی۔اس نئی زبان کو ہندو اور مسلمان سمجھ اور بول سکتے تھے اور چونکہ مغل بادشاہوں کی فوج میں ہر قوم و مذہب کے سپاہی ہوتے تھے۔اس لئے یہ فوجیوں کے لشکر کی زبان بن گئی۔فوجی لشکر کو ترکی زبان میں اُوردو کہتے ہیں۔لہٰذا لشکر میں بولی جانے والی زبان کا نام ”اُوردو“ پڑگیا۔ اُوردو کا لفظ خود منگولی زبان کے لفظ اُوردو ( یعنی پڑاو یا لشکر) سے ماخوذ ہے۔فارسی زبان کے زیرِ اثر لفظ ”اُوردو“ زیادہ ملائم ہوکر ”اُردو“ ہوگیا۔اس زبان کا شکوہ اور شان و شوکت ترکی الفاظ کی مرہون منت ہے اور اس کی مٹھاس اور شیریں بیانی اور دلکشی فارسی الفاظ کے طفیل ہے۔عربی کے وہ الفاظ جو ترکی اور فارسی نے مستعار کئے ہوئے ہیں وہ بھی اس نئی زبان اُردو نے اختیار کرلئے۔
مغل بادشاہوں کے آخری دو سو سال ( 1658 ءتا 1857ئ) میں علماءدین، اہل علم و دانشور اور شعراءنے اُردو زبان کو اظہار خیال کا ذریعہ بنایا۔اُس وقت دوسری زبان فارسی تھی۔اس طرح اس زبان کی ترقی اور توسیع ترویج کو مہمیز مل گئی۔اردو زبان کی شناخت کچھ ایسی ہے کہ دوسری زبانوں کے الفاظ اس میں شامل ہوکر اجنبی معلوم نہیں ہوتے بلکہ مستعمل ہونے پر اسی زبان کا جز معلوم ہونے لگتے ہیں۔
اُردو نے تحریکِ پاکستان کو فروغ دینے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔یہ پاکستان کے تمام صوبوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے اور قومی اتحاد کی علامت ہے۔مقامی زبانوں کے بے شمار الفاظ اب اردو زبان میں اپنی جگہ بنارہے ہیں۔اردو نے خود مقامی زبانوں کو بہت متاثر کیا ہے اور اس کے الفاظ اب بڑی بے تکلفی سے سندھی اور پنجابی زبان کی روز مرّہ گفتگو میں استعمال ہوتے ہیں۔
اردو نے پاکستان میں بہت ترقی کی ہے اور فروغ پایا ہے۔اردو ادب میں نظم کا بیش قیمت ذخیرہ موجود ہے۔ہمارے ادیبوں اور شاعروں نے اپنی کاوشوں سے اسے مالا مال کردیا ہے اور پاکستان کے عوام الناس میں اس کو مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔اُردو ڈراموں، اُردو فیچر فلموں اور اُردو میں میٹھے اور شیریں نغموں نے ان کے مطالب اور مفہوم کو سمجھنا آسان کردیا ہے۔اردو ذریعہ تعلیم بھی ہے اور امتحان کا ذریعہ بھی۔جدید علوم اور مضامین کا اُردو میں ترجمہ کیا جارہا ہے۔اُردو زبان کی ترقی کے لئے وفاقی سطح کے دو کالج یعنی اُردو سائنس کالج اور اُردو آرٹس کالج کراچی میں قائم کئے گئے ہیں۔جنہیں اب اُردو یونیورسٹی کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ حکومت نے ایک ادارہ ” مقتدرہ قومی زبان“ کے نام سے اسلام آباد میں قائم کیا ہے۔جس کا مقصد و مدعا اردو زبان کی ترقی وترویج ہے۔

سوال: بحیثیت قومی زبان اردو کی اہمیت بیان کیجئے؟

سوال: بحیثیت قومی زبان اردو کی اہمیت بیان کیجئے؟

قومی زبان کی اہمیت
ہر قوم کو اپنی پہچان اور شناخت کے لئے چند علامتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔زبان بھی کسی قوم کی بہت بڑی پہچان ہوتی ہے۔پاکستان چار صوبوں پر مشتمل ایک مضبوط اور مستحکم وفاق کا نام ہے اور اس کی قومی زبان اردو ہے۔بحیثیت قومی زبان اس کی اہمیت مندرجہ ذیل ہے۔
(۱) رابطے کا ذریعہ
یہ پاکستان کے عوام کے درمیان تعلقات بڑھانے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔یہ پاکستان کے چاروں صوبوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔اسی لئے یہ قومی اتحاد و یکجہتی اور استحکام کا ذریعہ ہے۔
(۲) تحریکِ پاکستان میں کردار
جب تحریکِ پاکستان اپنی ابتدائی منزلوں میں تھی تو اُس وقت اُردو سب سے زیادہ پسندیدہ زبان تھی۔یہ زبان جنوبی ایشیاء(برصغیرپاک و ہند) پر مسلمانوں کے دورِ حکومت میں پروان چڑھی ۔اُردو زبان اب اور منفرد اور نمایاں ہوگئی تھی کیونکہ اس نے عربی، فارسی، ترکی اور انگریزی کے ذخیرہ الفاظ کو خوب جذب کرلیا تھا۔اسلامی ثقافت نے اسے ایک علیحدہ پہچان دی اور اس کو مسلمانوں میں مقبول بنادیا۔اس اعتبار سے اکثر مسلم قائدین اور رہنماوں مثلاً سر سید احمد خان، شیخ عبدالمجید سندھی، علامہ اقبال، حسرت موہانی، علامہ شبلی نعمانی، قائدِاعظم اور دیگر اکابرین نے ہندی کے مقابلے میں اُردو زبان کی حمایت کرکے یہ ثابت کردیا تھا کہ اُردو برصغیر کی واحد زبان ہے جس میں اسلامی ادب کثرت سے پایا جاتا ہے۔اُردو نے عوام کے مابین اتحاد و اتفاق پیدا کیا۔
(۳) مشترکہ رشتہ
بحیثیت قومی زبان اُردو اور صوبائی زبانوں میں بہت قریبی اور بے تکلفی کا رشتہ پایا جاتا ہے۔یہ تمام زبانیں عربی، فارسی اور انگریزی سے متاثر ہیں اور اسی لئے ان زبانوں میں بے شمار مشترکہ الفاظ ہیں۔تمام زبانوں میں یکساں موضوعات پر کتابیں اور لٹریچر دستیاب ہے۔
(۴) ذرائع ابلاغ (ذرائع رسل و رسائل)
ریڈیو، ٹیلی ویژن اور پریس ابلاغ کے خاص ذرائع ہیں۔ یہ قومی اتحاد و اتفاق کے فروغ کے لئے قومی اور صوبائی زبانوں کی مدد سے اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ان زبانوں کے مشترکہ سرمائے سے لوگوں کو آگاہ کیا جاتا ہے۔اس سے زبان کو تقویت ملتیہے اور پاکستان کے مختلف علاقوں کے لوگوں میں ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔
(۵) فائدے کا ذریعہ
صوبائی زبانوں کی تحریریں مثلاً لوک کہانیاں، مضامین و مقالات، شاعری اور گیت اُردو میں ترجمہ کیے جاتے ہیں تاکہ انکو سمجھ کر لوگ زیادہ سے زیادہ فائدے حاصل کرسکیں اور لوگوں کے درمیان خیرخواہی اور نیک خواہشات کے جذبات فروغ پاسکیں اور ملک میں باہمی افہام و تفہیم میں اضافہ ہوسکے۔
(۶) رابطہ
پاکستان چار صوبوں کا ایک وفاق ہے۔ پاکستان کے مختلف صوبوں کے مابین اردو رابطے کی زبان کا فریضہ سرانجام دیتی ہے۔ اس طرح اُردو قومی زبان اتحاد و اتفاق کے لئے ایک اہم کردار ادا کررہی ہے۔
(۷) بین الاقوامی زبان
اُردو ادب صرف سارے ملک میں چھایا ہوا ہے بلکہ بیرونِ ملک بھی پھیلا ہوا ہے۔اُردو کا شمار بین الاقوامی زبانوں میں ہوتا ہے۔
(۸) مشترک ذریعہ
ہر قوم کی ایک زبان ہوتی ہے۔جو اس کے عوام کے مابین اتحاد و روابط کے ذریعے کے طور پر کام آتی ہے۔مسلمانوں کو باہم یکجا کرنے والی قوت اسلام ہے۔اسلام کے پیغام کی تبلیغ کے لئے اُردو ایک مشترک ذریعہ بنی ہے اور اسی وجہ سے یہ پاکستان کی قومی زبان ہے۔

سوال: قومی زندگی میں مشترکہ ثقافتی مظاہر کون کون سے ہیں؟

سوال: قومی زندگی میں مشترکہ ثقافتی مظاہر کون کون سے ہیں؟

قومی زندگی میں مشترکہ ثقافتی اظہار
پاکستان کے چاروں صوبوں کی اپنی اپنی صوبائی زبانیں موجود ہیں۔مختلف صوبوں کے رہنے والوں کے رسم و رواج اور رہن سہن میں معمولی فرق بھی ہے۔ لیکن پاکستان کے ثقافتی ورثے کا نمایاں تشخص اسلامی تہذیب ہے۔اس نظام میں مساوات، بھائی چارے، اُخوت، عدل و انصاف، حق گوئی اور سچائی کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔اس نطام حیات نے علم و ادب، تعمیرات، خطاطی اور لسانیات کو متاثر کیا۔ان کے حوالے سے ہمیں جانا اور پہچانا جاتا ہے۔اسلام نے پاکستان کے عوام کو اُخوت کے ایک رشتے میں پرودیا ہے۔ اسی لئے قومی زندگی میں مشترکہ ثقافتی اظہار حسب ِ ذیل ہے۔
(۱) ملی جلی ثقافت
پاکستان میں ملی جلی ثقافت پائی جاتی ہے اور اپنے اسی ڈھانچے کی بنیاد پر یہ بہت اہم ہے۔ہر خطے کے لوگ اپنے اطراف کے ماحول سے متاثر ہوتے ہیں۔ماحول کے اثرات ان کے لباس، غذا اور طرزِ زندگی سے ظاہر ہوتے ہیں۔پاکستان میں لوگ مختلف خطوں سے آکر آباد ہوئے ہیں۔ان میں عرب، ایرانی، اور ترک وغیرہ شامل ہیں۔یہ سب لوگ اپنے اپنے خطوں کے رسوم و رواج کے پیروکار تھے۔ ان کے لباس، زبان اور ثقافت جُدا تھی۔اب یہ تمام ثقافتیں ایک دوسرے میں شامل ہوگئی ہیںاور اُنھوں نے مشترکہ پاکستانی ثقافت پیدا کردی ہے۔
(۲) مردوں اور خواتین کی حیثیت و مرتبہ
پاکستانی ثقافت میں مرد کو منفرد اور ممتار مرتبہ حاصل ہے۔مرد خاندان کا سربراہ ہے۔اُس کو برتری اور فوقیت حاصل ہے۔لیکن عورت کو بھی خاندان کا ایک اہم جزو تصور کیا جاتا ہے۔جو چار دیواری کے اندر خاندانی معاملات چلاتی ہے اور اس چار دیواری کے اندر اُسی کا حکم چلتا ہے۔خانہ داری اور بچوں کی پرورش اور نگہداشت کسی بھی خاندان میں عورت کی ذمہ داری ہے۔نیز یہ کہ اسلامی اصولوں کے تحت عورت کو تعلیم کا حق، ملکیت کا حق اور تجارت کا حق حاصل ہے۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں خواتین و مردوں کے حقوق و فرائض کا تعین کیا گیا ہے اور پاکستان کے چاروں صوبوں میں ان اصولوں کی پیروی کی جاتی ہے اور اس طرح پاکستان کا مشترکہ ثقافتی ورثہ تشکیل پاتا ہے۔
(۳) معاشرتی زندگی
پاکستان میں معاشرتی زندگی بہت سادہ ہے۔لوگ قدیم روایات پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کے رسوم و رواج سادہ اور دلچسپ ہیں۔مشترکہ خاندانی نظام اختیار کیا جاتا ہے۔لوگوں کو بڑوں کی عزت کرنا اور بچوں سے پیار کرنا سکھایا جاتا ہے۔لوگ ایک دوسرے سے پیار و محبت اور احترام کے رشتے سے جڑے ہوئے ہیں۔خواتین کا احترام اور ان کی عزت کی جاتی ہے۔لوگوں کی اکثریت دیہات میں رہتی ہے اور زراعت اور مویشی پالنے سے منسلک ہیں۔شادیاں روایتی طریقوں سے منائی جاتی ہیں۔شہر میں بہت رنگینی اور حسن ہوتا ہے۔شادیوں پر کثیر رقم خرچ کی جاتی ہے۔شہروں میں بہت سے افراد قومی معیشت کے مختلف شعبوں میں ملازمت بھی کرتے ہیں۔اسی لئے پاکستان کے تمام حصوں میں معاشرتی زندگی تقریباً یکساں ہے۔ تاہم چندتہواروں اور مواقع کو منانے میں آب و ہوا اور ماحولیاتی حالات کے زیر ِاثر تھوڑا بہت فرق آجاتا ہے۔
(۴) غذا (خوراک)
پاکستان کے عوام کی اکثریت سادہ غذا کھاتی ہے۔یہ لوگ گندم کی روٹی، گوشت، دالیں اور سبزیاں کھاتے ہیں۔اور چائے، سادہ پانی یا مشروبات پیتے ہیں۔یہاں مقامی اور ملک کے دوسرے علاقوں کے پھل بھی کھائے جاتے ہیں۔ اسی لئے خوراک کی عادات بھی ہر صوبے میں تقریباً مشترک ہیں۔
(۵) تفریحات
ہماری تفریحات اور فارغ اوقات کے مشاغل ملتے جلتے ہیں۔کھیلوں میں ہاکی، کرکٹ، اسکوائش، کبڈی اور کشُتی پورے ملک میں یکساں طور پر مقبول ہیں۔تمام لوگ ان کھیلوں میں دلچسی لیتے ہیں اور اسی لئے یہ ہمارے قومی کھیل بن گئے ہیں۔ یہ کھیل ہمارے مشترکہ اور مماثل ثقافت کے عکاس ہیں۔
(۶) مذہبی تفریحات (تہوار)
مشترکہ اور مماثل ثقافتی ورثے کا مشاہدہ ہماری مذہبی تہواروںمیں بھی کیا جاسکتا ہے۔شادی ایک مقدس اور پاکیزہ مذہبی فریضہ ہے اور اسی لئے یہ اسلامی روایات اور رنگ کی عکاس ہے۔شادی کے موقع پر لوگ رنگین لباس پہنتے ہیں۔ دلنشین اور میٹھے گیت گاتے ہیں، تحفے تحائف لیتے اور دیتے ہیں اور لذیز کھانوں پر لوگوں کی دعوتیں کرتے ہیں۔شادی کے موقع پرگھروں کو رنگین روشنیوں سے سجایا جاتا ہے۔شادی خوشی، مسرت اور ہلہّ گلّہ کا ذریعہ بنتی ہے۔اس سے بھی ہمارے مشترکہ اور مماثل ثقافتی ورثے کا اظہار ہوتا ہے۔ اسی طرح پیدائش و موت کے چند رسوم و رواج ہیں۔ بچے کی پیدائش اور خاص طور پر لڑکے کی پیدائش پر خوشیاں منائی جاتی ہیں۔ ایک دوسرے کو تحفے تحائف دیے جاتے ہیں۔ کسی شخص کے انتقال پر لوگ غم ذدہ خاندان کے ساتھ دکھ و غم میںشریک ہوتے ہیں۔ اس موقع پر ہمسائے، اعزّہ و اقرباءاور احباب غم زدہ خاندان کے لئے کھانے کاانتظام کرتے ہیں۔ اس طرح لوگ ایک دوسرے کے ساتھ اخوت و محبت کے جذبات اُبھارتے ہیں۔ اسی طرح عیدلفطر اور عید الاضحی ہمارے مذہبی تہوارہیں۔ جنہیں جوش و جذبےسے منایا جاتا ہے۔ لوگ نئے لباس پہنتے ہیںاور مختلف قسم کے لذیز پکوان پکاتے ہیں۔ ان تمام مواقع پر اخوت و محبت کے عظیم جذبات کااظہار کیا جاتا ہے۔
(۷) اُخوت و محبت کا ایک ہی پیغام
ہمارے ثقافتی ورثے کا اظہار ہمارے مذہبی ادب (لٹریچر) اور اقدار سے ظاہر کیا جاتا ہے۔اُخوت و محبت کا ایک ہی پیغام ہے جو ہمارے صوفیوں نے مختلف زبانوں میں پہنچایا ہے۔مختلف ادیبوں نے مختلف زبانوں میں ادب تخلیق کیا ہے وہ امن، انسانیت، تصوف، عدل و انصاف، محبت کا پیغام اور درس دیتا ہے۔شاہ عبدالطیف بھٹائی اور سچل سرمست نے سندھ بھر میں؛ سلطان باہو، بلھے شاہ، اور وارث شاہ نے پنجاب میں؛ رحمان بابااور خوشحال خٹک نے سرحد میں اورگل خان نصیر نے بلوچستان میں ہمیں محبت اور اُخوت کا ایک جیسا درس دیا ہے۔
(۸) ذرائع ابلاغ
ریڈیو، ٹیلی ویژن، اخبارات و رسائل اور ذرائع آمدورفت کے ذریعے سے قومی ہم آہنگی، ربط اور مشترکہ قومی ثقافت نشونما پارہی ہے۔
(۹) نظام تعلیم
قومی سطح پر اختیار کیے جانے والے تعلیمی نظام کی وساطت سے قومی ثقافت کی نشونما ہوتی ہے اور یہ پروان چڑھتی ہے۔ہمارے تعلیمی نظام کی یکسانیت اور پڑھائے جانے والے مضامین، نگرانی کا نظام اور طریقہ امتحان و جانچ سے قومی جذبہ و روح بیدار کرنے میں مدد ملتی ہے اور بچوں کے درمیان مشترکہ ثقافتی اقدار کو فروغ ملتا ہے اور نئی نسل کا ثقافتی ورثے سے لگاو پیدا ہوتا ہے۔

سوال: پاکستان کے فنون اور دستکاریوں پر ایک نوٹ تحریر کیجئے۔

سوال: پاکستان کے فنون اور دستکاریوں پر ایک نوٹ تحریر کیجئے۔
ادب اور فنونِ لطیفہ
مصوّری، خطاطی، فنِ تعمیر اور موسیقی کو فنونِ لطیفہکہا جاتا ہے۔مسلم دورِ حکومت کے دوران جنوبی ایشیاء(برصغیر پاک و ہند) میں یہ فنون خوب پھلے اور پھولے۔اُن کی یہ کامیابیاں اور کامرانیاں ہمارا قومی ورثہ ہیں۔پاکستان میں ہمارے مصوّروں نے اعلیٰ پائے کی مصوّری کی۔ہمارے خطاطوں نے قرآن پاک کی آیات کو نہایت خوبصورت انداز میں رقم اور اسلامی اور قرآنی خطاطی کے اعلیٰ نمونے تخلیق کیے ہیں۔خوبصورت عمارت میں بھی مسلمانوں کا روایتی فنِ تعمیر کا عکس نظر آتا ہے۔موسیقی کے شعبے میں بھی قدیم موسیقی اور جدید سروں کے امتزاج سے نئے نئے تجربات کیے گئے۔ٹیلی ویژن اور اسٹیج ڈراموں کے ذریعے بھی فنونِ لطیفہ کو پروان چڑھایا گیا۔سنگِ تراشی، نقاشی اور دھاتوں اور لوہے سے زیورات سازی، ظروف سازی اور اسلحہ سازی میںبہترین اور شاہکار نمونے تخلیق کئے گئے ہیں۔
دستکاریاں
پاکستان کے تمام علاقوں میں دستکاری کا اعلیٰ اور معیاری کام نسل در نسل سے ہوتا چلا آرہا ہے۔یہ دستکاریاں عام طور پر خواتین اپنے گھروں میں کرتی ہیں۔سندھ میں لباس پر شیشہ سازی اور کندہ کاری کا نہایت نفیس کام ہوتا ہے اور یہ اپنی جگہ خود بڑا منفرد ہے۔سندھی اجرک بہت مشہور اور مقبول ہے۔کراچی میں سیپیوں اور پتھروں سے زیور اور آرائشی اشیاءبنائی جاتی ہے۔صوبہ سرحد میں کڑھائی، مینا کاری، اورکشیدہ کاری کا اعلیٰ اور معیاری کام ہوتا ہے۔دستکاری کے میدان میں پنجاب کا بھی بڑا حصہ ہے۔
ملتان کی اونٹ کی کھال سے بنے ہوئے لیمپ اور دیگر مختلف اشیاءنیز نیلے رنگ کی میناکاری والے برتن، بہاولپور کی مٹی کی نازک صراحیاں و دیگر ظروف۔ یہ سب ان
علاقوں کے لوگوں کے نفیس اور فنکارانہ کام کے عکاس ہیں۔چنیوٹ میں لکڑی پر کندہ کاری والا فرنیچر تیار ہوتا ہے۔ پاکستان میں کڑھائی، کشیدہ کاری اور شیشے کا کام بھی بہت اعلیٰ معیار کا ہوتا ہے۔ دستکاری کی یہ صفت پاکستان کے اکثر شہروں، دیہاتوں اور قصبوں میں قائم ہے۔جس سے ایک طرف ان کو روزگار ملتا ہے اور دوسری جانب ہماری ثقافت کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ دستکاریاں زرِ مبادلہ کمانے کا ایک ذریعہ بھی ہیں۔

سوال: تہواروں کی ہماری ثقافت کے لئے اہمیت بیان کیجئے؟

سوال: تہواروں کی ہماری ثقافت کے لئے اہمیت بیان کیجئے؟

تہوار
پاکستان میں ہر سال کئی تہوار اور میلے منعقد ہوتے ہیںاور یہاںکے لوگوں کی خوشی اور مسرت کا باعث بنتے ہیں۔یہ تہوار اور میلے حسبِ ذیل ہیں۔
(۱) عید الفطر
عید الفطر ماہِ رمضان المبارک کے اختتام پر یکم شوال کو منائی جاتی ہے۔ اُن مسلمانوں کے لئے جنہوں نے پورے ماہِ رمضان میں روزے رکھے ہوں اللہ تعالیٰ کی جانب سے انعام و اکرام ہے۔لوگ عید پر اچھے اچھے لباس پہنتے ہیں۔ سویاں کھاتے ہیں۔ مالدار لوگ غرباءاور مساکین کی نقدرقوم کے ذریعے مدد کرتے ہیں۔
(۲) عید الاضحی
عید الاضحی ماہ ذی الحجہ کی دس تاریخ کو منائی جاتی ہے۔یہ عید اُس قربانی یاد میں منائی جاتی ہے جو حضرت ابراہیم نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنے فرزندحضرت اسماعیل ؑ کی قربان کرکے پیش کی تھی۔عید الاضحی کے روز ہر صاحب حیثیت اپنی طرف سے جانور کی قربانی دے کر عزیزوں، دوستوں، ہمسایوں، اہلِ محلہ اور غرباءمیں گوشت تقسیم کرتے ہیں۔قربانی ذی الحجہ کی دس، گیارہ اور بارہ تاریخ یعنی 3 روز تک کی جاسکتی ہے۔

خالی جگہ پُر کریں



(۱) پاکستان کی قومی زبان اُردو ہے۔
(۲) پاکستان کی ثقافت ایک مشترکہ ثقافت ہے۔
(۳) پاکستان کا قومی لباس شلوار اور قمیض ہے۔
(۴) پاکستان میں چار زبانیں بولی جاتی ہیں۔
(۵) بلوچستان میں دو زبانیں پشتو اور براہوی بولی جاتی ہے۔
(۶) بلوچی زبان کے دو عظیم شعراءگل خان نصیر اور آزاد جمال الدین ہیں۔
(۷) شاہ حسین ایک عظیم پنجابی شاعر تھے۔
(۸) آزادی کے بعد سندھی زبان نے نثر اور نظم میں بے پناہ ترقی کی۔
(۹) پاکستان کے اکثر لوگ سادہ غذا کھاتے ہیں۔
(۰۱) اُخوت اور محبت کا ایک ہی پیغام جو ہمارے صوفیوں نے مختلف زبانوں میں دیا ہے۔
(۱۱) عید الفطر شوال کے مہینے میں منائی جاتی ہے۔
(۲۱) عیسائی 25 دسمبر کو حضرت عیسیٰ کا یومِ ولادت مناتے ہیں۔

مختصر سوال و جواب



سوال: پاکستانی ثقافت پر تین جملے لکھیں۔(۱) اُردو ہماری قومی زندگی کی مشترکہ قدر ہے چونکہ یہ پورے ملک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے ۔اسلئے اس سے قومی ثقافت و یکجہتی کا اظہار ہوتا ہے۔
(۲) فنِ تعمیر میں پاکستان کاثقافتی ورثہ بے حد شاندار ہے۔ مسلمان بادشاہوں کی عمارات اور ان کا اعلیٰ فنِ تعمیراس کامنہ بولتا ثبوت ہے۔
(۳) مشترکہ ثقافتی ورثے کا اظہار علاقائی شاعری اور ادب کی ان قدروں سے ہوتا ہے جو تمام علاقوں کے ادب میں یکساں موجود ہیں۔
سوال: اُردو کی تین خصوصیات بیان کیجئے۔
(۱) اُردو زبان کے اندر دوسری زبان کے الفاظ جذب کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔اس سے مشترکہ ثقافتی قدروں کو فروغ ملتا ہے۔
(۲) اُردو زبان قومی یکجہتی اور اتحاد کا تصور اُبھارتی ہے۔
(۳) اُردو زبان پاکستان کے ہر حصے میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔اس لئے یہ رابطہ کی زبان کہلاتی ہے۔
سوال: ثقافت کے کوئی چار عناصر تحریر کیجئے۔
(۱) رسوم و رواج
(۲) عقیدہ و مذہب
(۳) رہن سہن اور لباس
(۴) زبان
سوال: پاکستان کے قومی لباس پر تین جملے لکھیں۔(۱) پاکستان کا قومی لباس نہایت سادہ اور باوقار ہے
(۲) مرد شلوار قمیض یا کُرتا، شیروانی اور ٹوپی یا پگڑی پہنتے ہیں۔عورتوں کا عام لباس شلوار، قمیض اور دوپٹہ ہے۔
(۳) پاکستان کا قومی لباس بارعب اور باوقار ہونے کے ساتھ ساتھ پہننے والے کے اعلیٰ ذوق کا مظہربھی ہے۔
سوال: پاکستان کی کونسی دستکاریاں زیادہ مشہور ہیں؟ ان کی اہمیت پر تین جملے بیان کریں۔صوبہ سندھ میں شیشے کا کام، سوسی اور چاندی کے زیورات، ملتان میں اونٹ کے چمڑے سے بنی ہوئی مختلف اشیائ، نیلے رنگ کی میناکاری والے برتن، بہاولپور میں مٹی کی نازک صراحیاں اور دیگر ظروف، چنیوٹ میں لکڑی پر کندہ کاری والا فرنیچر کا کام ہوتا ہے۔کراچی میں سیپیوں اور پتھروں سے قسم قسم کی آرائشی چیزیں بنتی ہیں،جبکہ بلوچستان اور سرحد کی کشیدہ کاری مشہور ہے۔ یہ تمام اشیاءزرِ مبادلہ کمانے کا ذریعہ بن رہی ہیں۔
سوال: گھریلو صنعتوں کے تین فوائد بیان کیجئے۔(۱) گھریلو صنعتیں بے شمار لوگوں کے روزگار کا ذریعہ ہوتی ہیں۔
(۲) دیہات میں گھریلو صنعتوں کا قیام دیہات سے شہروں کی طرف منتقلی کے عمل کو روکنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

سوال: کسی ملک کی ترقی میں تعلیم کی اہمیت بیان کیجئے؟

 
سوال: کسی ملک کی ترقی میں تعلیم کی اہمیت بیان کیجئے؟
ترقی کے لئے تعلیم کی اہمیت(پاکستان کی تعلیمی پالیسی کے حوالے سے) کسی بھی ملک کی ترقی اور فروغ میں تعلیم کو ایک اہم درجہ حاصل ہے۔ اسی کی بدولت افراد علم و آگہی کی دولت سے مالامال ہوتے ہیںاور علم ایک ایسی قوت اور دولت ہے جو استعمال کرنے سے بڑھتی ہے۔تعلیم کی اہمیت یہ ہے کہ
(۱) تعلیم نے انسان کو ارتقاءکے کئی مراحل سے گذرنے میں مدد دی ہے۔ جس کی بدولت انسان سائنس اور فنی ترقی کے موجودہ دور تک پہنچ سکا ہے۔
(۲) انسان تعلیمکی مدد سے ہی زمین کی فطری قوتوں پر قابو پاسکا ہے۔
(۳) تعلیم کسی قوم کے نظریے کو سمجھنے اور اس نظریے کو استحکام بخشنے میں مدد دیتی ہے۔
(۴) تعلیم افراد میں قومی شعور کو اجاگر کرتی ہے اور حب الوطنی کے جذبات کو فروغ دیتی ہے۔
(۵) تعلیم کسی بھی شہری کو اس کے حقوق و فرائض سے آگاہی میں مدد دیتی ہے تاکہ وہ معاشرہ کی فلاح و بہبود کے فروغ میں اپنا کردار ادا کرسکے۔
(۶) تعلیم سے لوگوں کی تخلیقی صلاحیتوں کے فروغ میں مدد ملتی ہے۔ جس سے معاشرے میں صحت مند اور تعمیری تبدیلیوں کا عمل تیز ہوجاتا ہے۔
(۷) تعلیمی ارتقاءاور معاشی ترقی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ تعلیم کا معیار جتنا زیادہ بلند ہوگا افراد بھی اتنے ہی ہنر مند ہوں گے اور اتنا ہی ملک ترقی کر سکے گا۔
(۸) تعلیم قدرتی وسائل کی تلاش اور ان کے نفع آور استعمال میں مدد دیتی ہے۔
(۹)

سوال: قومی تعلیمی پالیسی (1998ءتا 2010ئ) میں بیان کردہ تعلیم کے اہم پہلووں پر روشنی ڈالیے؟

سوال: قومی تعلیمی پالیسی (1998ءتا 2010ئ) میں بیان کردہ تعلیم کے اہم پہلووں پر روشنی ڈالیے؟
قومی تعلیمی پالیسی برائے 1998ءتا 2010ءمیں تعلیم کی اہمیت
قومی تعلیمی پالیسی برائے 1998ءتا 2010ءمیںملک بھر میں تعلیم کی اہمیت کے مندرجہ ذیل پہلووں اور نکات پر زور دیا گیاہے۔
(۱) تعلیم کی سہولت تمام شہروں تک وسیع کی جائیگی اسلئے کہ یہ پاکستان کے ہر شہری کا حق ہے۔
(۲) ناخواندگی کو یکسر ختم کرنے کے لئے تمام رسمی اور غیر رسمی ذرائع استعمال کیے جائیں گے۔ 2010ءتک ابتدائی عمر (5سال تا 9سال) کے بچوں کے داخلوں کی شرح 100 فیصد تک بڑھائی جائے گی۔
(۳) لازمی ابتدائی تعلیم کا قانون (ایکٹ) منظور کرکے 2004-05تک نافذکردیا جائے گا۔
(۴) جو لوگ اعلیٰ تعلیم جاری رکھنے کا ارادہ رکھتے ہوں اُن کے لئے عمومی میٹرک کے ساتھ میٹرک ٹیکنیکل کی نئی اسکیم متعارف کرائی جائے گی۔ ٹیکنیکل تعلیم کی سہولتیں بڑھائی جائیں گی اور ٹیکنیکل اور پیشہ ورانہ تعلیم کے اساتذہ کی تربیت کا پروگرام شروع کیا جائے گا تاکہ ان اساتذہ کی بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کیا جاسکے۔
(۵) ٹیکنیکل تعلیم اور سائنسی علوم کا دائرہ وسیع کیا جائے گا۔ اس مقصد کے لئے ثانوی اور اعلیٰ ثانوی درجوں تک کمپیوٹر کی تعلیم متعارف کرائی جائے گی۔ اساتذہ کرام کو فنی اورٹیکنیکل تربیت کے مواقع فراہم کئے جائیں گے۔
(۶) تربیت اساتذہ کے اداروں کی موجودہ گنجائش کو پوری طرح استعمال کیا جائے گا۔پرائمری اساتذہ کی تعلیمی سطح میٹرک کے بجائے انٹر میڈیت مقرر کرکے تعلیم اساتذہ کے پروگرام کے معیار کو بلند کیا جائے گا۔ایف اے، ایف ایس سی اور بی اے/ بی ایس سی کے لئے دو متوازی پروگرام متعارف کرائے جائیں گے۔تعلیم اساتذہ کے نصاب پر نظر ثانی کرکے اس کو اس خطے کے دوسرے ممالک کے پروگراموں کے ہم پلّہ بنایا جائے گا۔
(۷) نجی شعبوں کو غیر تجارتی بنیادوں پراور خاص طور پر دیہی علاقوں میں تعلیمی ادارے کھولنے کے لئے مالی امداد کی فراہمی کے لئے ایک تعلیمی فاونڈیشن (ایجوکیشن فاونڈیشن) قائم کی گئی ہے۔
(۸) ہر ضلع میں ایک” ضلعی مقتدرہ تعلیم“(ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹی) قائم کی جائے گی تاکہ تعلیمی پروگراموں کے نفاذ اور ان کی نگرانی کے لئے عوام کی شرکت کو یقینی بنایا جاسکے۔
(۹) تعلیم کے لئے قومی بجٹ کو کل قومی آمدنی کا 2.2 فیصد سے بڑھا کر 4 فیصد کردیا جائے گا۔
(۰۱) اسی پالیسی کے تحت دینی مدارس کے معیار تعلیم کو بلند کرنے، ان کو جدید اسکولوں کے قریب لانے اور ان کے نصاب اور مضامین کو

سوال: تعلیم کی سماجی و ثقافتی اہمیت بیان کیجئے؟

سوال: تعلیم کی سماجی و ثقافتی اہمیت بیان کیجئے؟
سماجی و ثقافتی پہلو
جہالت اور ناخواندگی تمام سماجی برائیوں کی جڑ ہے۔تعلیم کی کمی کی وجہ سے بے شمارایسی رسوم و رواج پر عمل کیا جاتا ہے جو اسلامی تعلیمات و اقدار کے منافی ہیں۔مثال کے طور پر شادی بیاہ کے مواقع پر ہوائی فائرنگ، رویت ہلال پر جھگڑا اور منشیات کا استعمال وغیرہ۔ لوگوں کی ذہنی سطح کا اظہار ان کی ثقافت اور طور طریقوںسے ہوتا ہے۔اسی لئے ثقافتی اقدار کو بامقصد ہونا چاہیے ۔تعلیم کے بغیر مصوّری، شاعری، ادب اور دیگر فنون لطیفہ کو سراہا نہیں جاسکتا۔ روز مرہ کے معمولات اورمعاملات میںخوبصورتی تعلیم کی بدولت ہی ممکن ہے۔ایک تعلیم یافتہ شخص اپنے بہتر انداز گفتگو ،خوبصورت رویے اوراچھے برتاو سے ہی پہچانا جاتا ہے۔ زندگی کو بہتر بنانے کے لئے صرف دولت ہی کافی نہیں ہے۔بلکہ یہ تعلیم ہی ہے جو انسان کو مہذب اور متمدن بناتی ہے۔پس رویوں، طور طریقوں اور زندگی گذارنے کے انداز میںمفید تبدیلی کے لئے تعلیم ایک انتہائی اہم ذریعہ ہے۔اسی

سوال: پاکستان میں رسمی تعلیم کی ساخت کس قسم کی ہے؟

سوال: پاکستان میں رسمی تعلیم کی ساخت کس قسم کی ہے؟
رسمی تعلیمی نظام
رسمی تعلیمی نظام سے مراد یہ ہے کہباقاعدہ تعلیمی ادارے کھولے جائیں۔وہاں نصاب کے مطابق کتب رائج کی جائیں۔اساتذہ کا تقرر کیا جائے اورامتحانات کا ایک ایسا نظام اور طریقہ وضع کیا جائے جو طلبہ کی تعلیمی قابلیت کو جانچ سکے اور پھرکامیاب طلبہ اور طالبات میں سرٹیفکٹ، ڈگریاں اور اسناد تقسیم کی جائیں۔رسمی تعلیم کے لئے قاعدے اور قانون بنائے جاتے ہیںاور ان قواعد اور ضوابط سے اس نظام کی نگرانی کی جاتی ہے۔کسی سرٹیفکٹ، ڈگری یا سند کے حصول کے لئے ایک خاص سطح تک مطالعہ اور پڑھائی کا دورانیہ ہوتا ہے۔رسمی تعلیم کی روح اس کی تنظیم و تربیت، انتظام ونگرانی و اختیارمیں پوشیدہ ہے۔رسمی تعلیم مکمل طور سے حکومت کے دائرہ اختیار میںآتی ہے۔پاکستان میں رسمی تعلیمی نظام کو حسب ذیل سطحوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
(۱) ابتدائی یا پرائمری سطح
پاکستان میں ابتدائی تعلیم پہلی سے پانچویں جماعت تک دی جاتی ہے۔کل مدت پانچ سال ہے۔بچوں کو چار یا پانچ سال کی عمر میں پہلی جماعت میں داخل کیا جاتا ہے۔
(۲) وسطی یا مڈل سطح
چھٹی جماعت سے آٹھویں جماعت تک کی تعلیم کو وسطی (مڈل) سطح تک تعلیم کا نام دیا گیا ہے۔اس کی مدت تین سال ہے۔ ابتدائی (پرائمری) تعلیم میں کامیابی کے بعد اسکول کی جانب سے ایک سرٹیفکٹ جاری کیا جاتا ہے۔
(۳) ثانوی یا سیکنڈری سطح
نویں اور دسویں جماعت کو ثانوی سطح کہا جاتا ہے۔ثانوی اسکول امتحانات میں کامیابی کے بعد طلباءکو اعلیٰ ثانوی جماعتوں میں داخل کیا جاتا ہے۔اس کی مدت دوسال ہے۔اس درجے میں کامیابی کے بعد متعلقہ بورڈ ایک سرٹیفکٹ جاری کرتا ہے۔
(۴) اعلیٰ ثانوی یا ہائیر سیکنڈری سطح
گیارہویں اور بارہویں جماعتوں کو اعلیٰ ثانوی درجہ کہا جاتا ہے۔ثانوی اسکول امتحانات میں کامیابی کے بعد طلباءکو اعلیٰ ثانوی جماعتوں میں داخل کیا جاتا ہے۔اس کی مدت دو سال ہے۔اس درجے میں کامیابی کے بعد متعلقہ بورڈ ایک سرٹیفکٹ جاری کرتا ہے۔
(۵) سند یا ڈگری کی سطح
اعلیٰ ثانوی سطح کی تعلیم میں کامیابی کے بعد اِس درجے کا آغاز ہوتا ہے اورطلبہسند کے حصول کے لئے کسی کالج میں داخلہ لیتے ہیں۔حکومت نے اس کی مدت دو سال سے بڑھا کر تین سال کردی ہے اور اب یہ پڑھائی کے تیرہویں سال سے پندرہویں سال تک جاری رہتی ہے۔کامیاب امیدواروں کو جامعہ (یونیورسٹی) سندیا ڈگری جاری کرتی ہے۔تاہم ملک کے بعض حصوں میں اس وقت بھی ڈگری کورس کی مدت دو سال ہے۔
(۶) جامعہ (یونیورسٹی) کی سطح
جب طلبہ کسی کالج سے ڈگری کے درجے کے امتحان میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔اس کے بعد وہ یونیورسٹی (جامعہ) کی سطح کی تعلیم کا آغاز کرتے ہیں۔اس کی مدت دو سال ہے
(۷) پیشہ ورانہ تعلیم
پیشہ ورانہ تعلیم بھی رسمی تعلیم کا حصہ ہے۔اس کو مندرجہ ذیل اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
(۱) ڈپلوما
(۲) انجینئرنگ کی سند
(۳) میڈیکل کی سند
(۴) تجارت (کامرس اور بزنس ایڈمنسٹریشن) کی سند
(۵) زرعی تعلیم کی سند
(۸) اعلیٰ تعلیم
ایم اے، ایم ایس سی، ایم بی اے اور ایم کام کے بعد مزید اعلیٰ تعلیم حاصل کی جاسکتی ہے۔ماسٹر کی سند حاص کرنے کے بعد پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی جاتی ہے۔اس طرح ایم بی بی ایس بننے کے بعد ڈاکٹر طب کی مختلف شاخوں میں اختصاص حاصل کرتے ہیں۔ایسے لوگ اسپیشلسٹ (ماہر) ڈاکٹر کہلاتے ہیں۔ رسمی تعلیم کے لئے حکومت نے پورے پاکستان میں لاتعداد ادارے کھول رکھے ہیں۔یہ نظام عموماً حکومت کے زیرِ اہتمام اور زیزِ نگرانی ہوتا ہے اور یہاں حکومت کے قواعد و ضوابط کی پیروی کی جاتی ہے۔تاہم اس رسمی نظامِ تعلیم میں ہر سطح اور درجے کے لئے نجی تعلیمی ادارے بھی کھل گئے ہیں۔لیکن ان نجی اداروں کی فیس سرکاری اداروں سے بہت زیادہ ہوتی ہے اور یہ عموماً ملک کے متوسط طبقے کے لئے ناقابلِ

سوال: تعلیم کی ثانوی سطح پر نصاب کے اہم اجزاءکیا ہیں؟

سوال: تعلیم کی ثانوی سطح پر نصاب کے اہم اجزاءکیا ہیں؟

تعلیم اور پڑھائی کے منصوبے اوراسکیمیں
تعلیم یا مطالعہ کے منصوبوں (اسکیموں) سے مختلف درجات میں مجوزہ نصاب مراد ہوتا ہے۔تعلیم کے مختلف درجات اور سطحوں کے لئے تعلیمی منصوبے ایک دوسرے سے قطعاً جدا ہوتے ہیں۔یہ منصوبے ذیل کے مطابق ہیں۔
(۱) ابتدئی یا پرائمری سطح
ابتدائی یا پرائمری سطح کے مضامین میں علاقائی زبانیں، اُردو، گنتی، سادہ حساب، مطالعہ فطرت اور اسلامیات شامل ہیں۔
(۲) وسطی یا مڈل سطح
اس اسکیم کے مضامین میں علاقائی زبانیں، اُردو، انگریزی، الجبرا، جیومیٹری، سائنس، معاشرتی علوم اور اسلامیات شامل ہیں۔
(۳) ثانوی سطح
اس سطح پر اُردو، انگریزی، اسلامیات اور مطالعہ پاکستان تمام گروپوں کے طلبہ کے لئے لازمی مضامین ہیں۔فنون (ہیومینٹیز) کے طلبہ کے لئے جنرل سائنس لازمی مضمون ہے۔اس کے علاوہ وہ ریاضی اور فنون کے دو مضامین بھی اختیار کرسکتے ہیں۔سائنسی گروپ کے طلبہ لازمی مضامین کے ساتھ ساتھ طبیعات، کیمیا، ریاضی اور حیاتیات بھی پڑھتے ہیں۔
(۴) اعلیٰ ثانوی سطح
اس سطح میں سائنس اور فنون دونوں گروپوں کے طلبہ کے لئے اُردو، انگریزی، اسلامیات اور مطالعہ پاکستان لازمی مضامین ہیں۔سائنس گروپ کے طلبہ سائنس کے تین مضامین اور فنون گروپ کے طلبہ فنون کے تین مضامین منتخب کرتے ہیں۔سائنس کے پھر تین گروپ بنتے ہیں یعنی پری میڈیکل، پری انجینئرنگ اور جنرل سائنس گروپ۔ کامرس گروپ کے طلبہ بھی تجارت (کامرس) کے تین مضامین منتخب کرتے ہیں۔
(۵) ڈگری کی سطح
بی اے اور بی ایس سی کے سطح یا درجے پر فنکشنل انگریزی، مطالعہ پاکستان اور اسلامیات لازمی مضامین ہیں۔اختیاری مضامین کی ایک فہرست میں سے تمام گروپوں کے طلبہ دو سے تین تک اختیاری مضامین کا انتخاب کرتے ہیں۔
(۶) یونیورسٹی کی سطح
ماسٹرز کے درجے کے لئے طلبہ تعلیم کے کسی ایک شعبے کا مطالعہ کرتے ہیں اور ہر شعبے میں وہ سات یا آٹھ مضامین کا مطالعہ کرتے ہیں۔یہاں پر طلبہ کو مختلف مضامین میں سے اپنی پسند کا مضمون منتخب کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔ یونیورسٹی کی سطح (ایم اے/ایم ایس سی) کے بعد طلبہ ان مضامین میں ایم فل اورپی ایچ ڈی کرسکتے ہیں جو انہوں نے ایم اے یا ایم ایس سی کی سطح پر منتخب کیے تھے۔جو لوگ پیشہ ورانہ نوعیت کی سند حاصل کرتے ہیں انہیں بھی اپنے اپنے میدانوں میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ انجینئرنگ ، طب(میڈیکل)، زراعت اور تجارت (کامرس) اختیاری مضامین ہیں۔ان میں طلبہ کے لئے انتخاب بہت وسیع نہیں ہوتا ہے۔ ان کو طے شدہ مضامین میںسے ہی پڑھنا ہوتا ہے۔

سوال: تربیت ِ اساتذہ پر ایک نوٹ تحریر کیجئے؟

سوال: تربیت ِ اساتذہ پر ایک نوٹ تحریر کیجئے؟

تربیتِ اساتذہ
کوئی بھی تعلیمی نظام اپنے اساتذہ کی علمی سطح پر بلند ترین ہوتا ہے۔ کسی بھی نظامِ تعلیم میں اساتذہ اہم کردار ادا کرتے ہیں۔اس لئے یہ انتہائی ضروری ہے کہ اساتذہ مناسب علم اور مہارت کے حامل ہوں اور تعلیم کے مقاصد کے حصول اور اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لئے مناسب رویہ اختیار کرتے ہوں۔ تربیتِ اساتذہ کی چند مخصوص سطحیں ہیں جو اساتذہ کی عمومی تعلیمی قابلیت کے پیشِ نظر رکھی گئی ہیں۔
(۱) پرائمری اسکول اساتذہ
پرائمری اسکول کے اساتذہ کو تربیت دی جاتی ہے بشرطیکہ انہوں نے ثانوی اسکول امتحان میں لازماً کامیابی حاصل کرلی ہو۔انہیں ایک سال کی تربیت مہیا کی جاتی ہے۔تربیت کی تکمیل کے بعد انہیں پرائمری ٹیچرز سرٹیفکٹ (پی ٹی سی) کی سند دی جاتی ہے۔
(۲) مڈل اسکول اساتذہ
ایسے افراد جو اف اے/ایف ایس سی کے امتحان میں کامیابی حاصل کرچکے ہوں انہیں ایک سال کی تربیت دی جاتی ہے اور سرٹیفکٹ اِن ایجوکیشن (سی ٹی) کی سند دی جاتی ہے۔ پی ٹی سی اور سی ٹی کی تربیت گورنمنٹ کالجز آف ایلیمینٹری ایجوکیشن (جی سی ای) میں مہیا کی جاتی ہیں۔لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے علیحدہ علیحدہ ایلیمینٹری کالج ہیں۔یہ ایلیمینٹری کالج ملک کے اندر ضلعی صدر مقام پر کھولے گئے ہیں۔
(۳) ثانوی اسکول اساتذہ
ایسے افراد جو بی اے/بی ایس سی کی سند کے حامل ہوں انہیں گورنمنٹ کالج آف ایجوکیشن میں ایک سال کی تربیت دی جاتی ہے۔جو ”بیچلرزآف ایجوکیشن (بی ایڈ)“ کہلاتی ہے۔یہ کالج ملک کے ہر صوبے میں چند منتخب مقامات پر کھولے گئے ہیں۔جو لوگ تعلیم کے کسی ایک شعبے میں خصوصی مہارت حاصل کرنا چاہتے ہیںوہ ایک سال کی مزید تربیت حاصل کرتے ہیں۔جسے ”ماسٹر آف ایجوکیشن (ایم ایڈ)“ کہتے ہیں۔کورس کالج آف ایجوکیشن یا جامعات کے انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن میں کرائے جاتے ہیں۔چند اساتذہ جامعات کے تعلیم کے میدان میں ایم فل اور پی ایچ ڈی بھی کرتے ہیں۔ایم ایڈ اور ایم فل اسناد کے حامل افراد کالج آف ایجوکیشن میں پڑھاتے ہیں۔ جامعہ کی سطح پر اساتذہ کو تربیت دینے کے لئے پی ایچ ڈی افراد کا تقرر کیا جاتا ہے۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی نے اپنے فاصلاتی تعلیمی نظام کے تحت ایسے اساتذہ کی تربیت کا آغاز کیا ہے جو تربیت اساتذہ کے باقاعدہ اداروں کے رسمی کورس میں کسی وجہ سے شریک نہیں ہوسکتے۔ قومی تعلیمی پالیسی 1998ءتا 2010ئ) کے تحت تربیت اساتذہ کے کورسوں کو جدید بنایا گیا ہے اور اسی کی مطابقت میں ہر سطح پر تربیت کی مدت اور وقفہ بھی بڑھادیا گیا ہے اور اساتذہ کی تنخواہیں بھی بہتر کی گئی ہیں۔

سوال: پاکستان میں فنی (ٹیکنیکل) اور پیشہ ورانہ تعلیم کی اہمیت بیان کیجئے؟

کیجئے؟
 
سوال: پاکستان میں فنی (ٹیکنیکل) اور پیشہ ورانہ تعلیم کی اہمیت بیان کیجئے؟
فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم(ٹیکنیکل اور ووکیشنل تعلیم)
جدید عہد فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم کا عہد ہے۔ جس کی بدولت اقتصادی اور صنعتی ترقی کی رفتار کو برقرار رکھنے میں مدد ملتی ہے۔اسی لئے حکومت نے ملک میں فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم کو بہتر بنانے پر خصوصی توجہ دی ہے۔ہر ضلعی صدر مقام پر پولی ٹیکنک انسٹیٹیوٹ کھولے گئے ہیں۔ان اداروں میں میٹرک میں کامیاب ہونے والے طلبہ کو اہلیت کی بنیادپر داخل کیا جاتا ہے۔فارغ التحصیل طلبہ کو فنی (ٹیکنیکل) تعلیم کا ڈپلومہ دیا جاتا ہے۔حکومت نے ملک بھر میں ایسےکئی منصوبے شروع کئے ہیں جن کا مقصد ان فنی تعلیمی اداروں کو آلات و سازوسامان کی سہولتیں فراہم کرنا، فنی تعلیم کے نصاب کو بہتر بنانا اور فنی تعلیم مہیا کرنے والے اساتذہ تیار کرنا ہے۔حکومت پاکستان نے ایک سائنسی تعلیم کے پروگرام کا آغاز کیا ہے جس کا مقصد ریاضی اور سائنس کی تعلیم کے نصابوں کے معیار کو بہتر کرنا ہے۔ان نصابوں سے تقریباًچھ فیصد طلبہ کامیاب ہوں گے۔
حکو مت پاکستان نے صوبہ سرحد میں ٹوپی (TOPI) کے مقام پر غلام اسحاق خان انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی قائم کیا ہے۔جو فنی تعلیم کا سب سے زیادہ معیاری اور جدید ادارہ ہے۔اس کا معیار بین الاقوامی سطح کا ہے مگر اس ادارے میں صرف مالدار افراد ہی تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔ فیصل آباد میں ٹیکسٹائل کی پیشہ ورانہ اور فنی تربیت کا ایک ادارہ قائم کیا گیا ہے جو کپڑے کی صنعت کے ماہرین تیار کرتا ہے۔
سندھ میں پولی ٹیکنیک ادارے اور کالج کراچی، حیدرآباد، بدین اور نواب شاہ میں قائم ہیں۔سندھ میں ہر ضلع کے صدر مقام پر ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ بھی قائم کئے گئے ہیں۔
حکومت فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم پر اس لئے زور دے رہی ہے تاکہ ایسے سند یافتہ اور تعلیم یافتہ فنی ہاتھ تیار کئے جاسکیں جو بین الاقوامی مارکیٹ میں مقابلے کے لئے اعلیٰ معیاری فنی مصنوعات تیار کرسکیں۔ حکومت فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم کی بہتری پر کثیر رقم خرچ کررہی ہے۔

سوال: پاکستان میں تعلیم کے شعبے میں اہم مسائل کیا ہے؟

سوال: پاکستان میں تعلیم کے شعبے میں اہم مسائل کیا ہے؟
شعبہ تعلیم میں مسائل
پاکستان کو شعبہ تعلیم میں مندرجہ ذیل مسائل کا سامنا ہے۔
(۱) جاگیرداروں اور زمینداروں کا طرزِ عمل
غریب بچوں کی تعلیم کی راہ میں جاگیردارانہ نظام سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔والدین اتنے غریب ہیں کہ بمشکل ہی اپنے بچوں کی تعلیم کے اخراجات برداشت کرسکتے ہیں۔دوسری جانب دیہی علاقوں میں جاگیردار اور زمیندار غریب والدین کے بچوں کی تعلیم کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔وہ غریب بچوں سے بہت کم معاوضہ پر کام لینا چاہتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ دیہی علاقوں میں خواندگی کی شرح میں اضافہ نہیں ہوا ہے۔اس طرح بچیوں کی تعلیم کو بھی بہت نقصان پہنچا ہے۔
(۲) سیاستدانوں اور اعلیٰ سرکاری حکام کا رویہ:
سیاستدان بباطن تعلیم کے فروغ اور اس کے پھیلاو�¿کے خلاف ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ تعلیم کے ذریعے عوام میں شعور بیدار ہوگا جس سے اُن کی بدعنوانیاں اور بے قاعدگیاں بے نقاب ہوجائیں گی۔
(۳) ترکِ تعلیم
بچوں میں ہر سطح پر ترکِ تعلیم کی شرح بڑھتی جارہی ہے۔تقریباً 85 فیصد بچے پرائمری اسکولوں میں داخل ہوتے ہیں۔لیکن بمشکل 56 فیصد بچے اپنی پرائمری تعلیم کا پانچ سالہ دور مکمل کرپاتے ہیں۔وسطی (مڈل) سطح پر ایک نمایاں اکثریت درمیان میں تعلیم ترک کردیتی ہے۔ترکِ تعلیم کی سب سے اہم وجہ والدین کی معاشی حالت ہے کیونکہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم کے اخراجات براداشت نہیں کرپاتے ہیں۔
(۴) اساتذہ کی غیر حاضری
دیہی علاقوں میں اساتذہ کی غیر حاضری نے بھی تعلیم کے فروغ کو بری طرح متاثر کیا ہے۔دیہات میں اساتذہ کی کمی، فرضی اور جعلی (گھوسٹ) اسکولوں کا وجود اور دیہی اسکولوں کی موثر نگرانی نہ ہونے کے سبب تعلیم کے فروغ کی رفتار انتہائی سست پڑ گئی ہے۔
) نجی تعلیمی اداروں کی بھاری فیس
نجی شعبے کے اسکولوں میں مہیا کردہ سہو لتوں کے مقابلے میں بہت زیادہ بھاری فیسیں وصول کی جاتی ہیں۔اساتذہ سے ضرورت سے زیادہ کام کیا جاتا ہے۔لیکن تنخواہیںکم دی جاتی ہیں۔حکومت کو ایسے اسکولوں کی سخت نگرانی کرنی چاہئے۔ نجی اسکولوں میں صرف رجسٹریشن فیس 2 سو روپے سے 10 ہزار روپے تک ہے جبکہ ماہانہ فیس بھی ہزاروں میں ہوتی ہے۔اساتذہ کا معیار بھی واجبی سا ہوتا ہے لیکن یہ اپنے اثر و رسوخ اور ذاتی تعلقات سے فائدہ اٹھاتے ھیں۔
(۶) سازوسامان کی سہولتوں کی کمی
تعلیم کے معیار میں پستی اور زوال کا ایک سبب پرائمری اسکولوں کی باقاعدہ عمارتیں نہ ہونا بھی ہے۔اکثر اسکولوںکی نہ چار دیواری ہے اور نہ ہی انہیں بیت الخلاءاور صاف پانی کی سہولت میسّر ہے۔ان اسکولوں میں فرنیچر کی بھی کمی ہے۔دیہی علاقوں میں اکثر اسکول صرف ”واحد کمرہ اسکول“ ہیں۔یہ سب بہت بری حالت میں ہیں۔ان اسکولوں میں تعلیم کا معیار بھی بہت پست ہے۔
(۷) درسی کتب کی عدم دستیابی
درسی کتب کی زیادہ قیمتوں کی وجہ سے بے شمار طلبہ انہیں خریدنے سے قاصر ہیں۔نجی اور انگریزی ذریعہ تعلیم کے اسکولوں میں رائج درسی کتابیں بہت مہنگی ہیں۔اعلیٰ تعلیم اور پیشہ ورانہ نصابوں کی اکثر درسی کتب درآمد کی جاتی ہیں اور وہ بہت مہنگی ہیں۔
(۸) طلبہ کے لئے رہائش
فنی اور میڈیکل کالجوں کے طلبہ کے لئے ہوسٹل کی رہائش بھی مسئلہ بن گئی ہے۔ان اداروں میں طلبہ کی بڑھتی ہوئی تعداد کے لحاظ سے ہوسٹل کی رہائش مہیا نہیں ہے۔
(۹) سیاسی مداخلت
تعلیمی اداروں کے انتظامی معاملات اور خصوصاً اساتذہ کی تقرریوں اور تبادلوں میں عوامی نمائندے مداخلت کرتے ہیں۔اہلیت کو نظر انداز کردیا جاتا ہے اور تقرریوں میں جانب داری برتی جاتی ہے یا سیاسی سفارشیں کی جاتی ہیں۔

سوال: پاکستان میں تعلیم کے میدان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی (اطلاعاتی فنّییت) کے کیا مقاصد ہیں؟

سوال: پاکستان میں تعلیم کے میدان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی (اطلاعاتی فنّییت) کے کیا مقاصد ہیں؟
معنی اور مفہوم
اطلاعاتی فنّییت (انفارمیشن ٹیکنالوجی IT) مواصلات (ٹیلی کمیونیکیشن) کے میدان میںایک جدید اختراع ہے۔اس فنّییت کی بدولت اعدادوشمار انٹرنیٹ کے ذریعے ہزاروں کلو میٹر دور ایک مقام سے دوسرے مقام تک منتقل کئے جاسکتے ہیں۔افراد اور اداروں نے اپنی اپنی ویب سائٹس تخلیق کی ہیں جو پلک جھپکتے ہی مطلوبہ معلومات مہیا کردیتی ہیں۔ انٹرنیٹ درآمد اور برآمد اور تحقیقاتی مواد کے حصول کا تیز رفتار ذریعہ بن گیا ہے۔اطلاعاتی فنّییت کے لئے مہارت اور ہنر مندی کی ضرورت ہے تاکہ مشینوں کو چلایا جاسکے۔پاکستان میں اطلاعاتی فنّییت کا مستقبل بہت روشنہے۔کئی غیر ملکی کمپنیاں وسیع پیمانے پر اس میدان میں سرمایہ کاری کررہی ہیں۔
مقاصد
تعلیم کے میدان میں اطلاعاتی فنّییت کے بھر پور پروگرام کے مندرجہ ذیل مقاصد ہیں۔
(۱) ہر درجے پر اطلاعاتی فنّییت کے اطلاق سے پاکستان کے نظام تعلیم کو جدید بنانا۔
(۲) انٹرنیٹ کے ذریعے جدید تحقیق اور تازہ اطلاعات و معلومات تک رسائی حاصل کرنا ہے۔
(۳) ہر عمر کے بچوں میں اطلاعاتی فنّییت کو مقبول بنانا اور انہیں آئندہ عشروں کے لئے تیار کرنا۔
(۴) کمرہ جماعت میں تعلیم کے آلہ کار کے طور پر کمپیوٹر کے مختلف کرداروں پر زور دینا ہے۔
(۵) اساتذہ کی تربیت اور دیگر تعلیمی سرگرمیوں کے لئے رسل و رسائل کی ٹیکنالوجی کو استعمال کرنا۔

سوال: فلاحی ریاست سے کیا مراد ہے؟

سوال: فلاحی ریاست سے کیا مراد ہے؟
فلاحی ریاست سے مراد ایک ایسی ریاست ہے جو اپنے شہریوں کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھے اور انہیں اس قابل بنائے کہ وہ پُر امن وپُرسکون زندگی گزارسکیں۔ریاست کے مقاصد میں جہالت و ناخواندگی، غربت و افلاس اور معاشرے سے ناانصافی کا خاتمہ شامل ہوتے ہیں۔اپنے شہریوں کو ایسے مواقع اور ماحول مہیا کرنا بھی اس کے مقاصد میں شامل ہوتا ہے جس میںوہ اپنی فطری صلاحیتیں اُجاگر کر سکیں۔

سوال: ایک اسلامی فلاحی ریاست کا کیا تصور ہے

سوال: ایک اسلامی فلاحی ریاست کا کیا تصور ہے؟
فلاحی مملکت کے بارے میں اسلامی تصور
فلاحی مملکت کا تصور کوئی نیا نہیں ہے۔اسلام نے چودہ سو سال قبل فلاحی مملکت کا تصور پیش کیا تھا اور خلافت راشدہ کے دور میں اس پر مکمل طور پر عمل کیا گیا تھا۔ایک اسلامی فلاحی ریاست کا تصور حسب ِذیل ہے۔
(۱) اسلام میں اقتدارِ اعلیٰ اللہ تبارک و تعالیٰ کے پاس ہے۔ریاست نیابتاً اپنے شہریوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کرتی ہے۔ہر کس و ناکس کو بلا کسی امتیاز کے انصاف فراہم کرتی ہے۔یہاں قانون کی نظر میں سب برابرہوتے ہیں۔افراد کے درمیان فوقیت اور برتری کا دارومدارصرف تقویٰ (اللہ کے خوف) کی بنیاد پرہوتا ہے۔
(۲) اسلامی فلاحی ریاست میں یہ لازم ہے کہ حاکم اسلام کے بنیادی احکامات کا پابند ہو اور وہ اللہ سے ڈرنے والا مسلمان ہو۔حاکم تو صرف امین ہوتاہے۔
(۳) اسلامی فلاحی ریاست کا حاکم عوام کا خادم ہوتا ہے۔وہ ہمیشہ عوام کی فلاح و بہبود کے بارے میں سوچتا ہے۔ وہ ایک عام آدمی کی طرح زندگی گزارتا ہے۔
(۴) اسلامی فلاحی ریاست میں حکومت ہمیشہ اپنے عوام کے سامنے جوابدہ ہوتی ہے۔یہ تمام شہریوں کو ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کے یکساں مواقع فراہم کرتی ہے۔یہ ریاست غیر مسلموں سمیت تمام افراد کو بنیادی سہولتیں مہیا کرتی ہے۔
(۵) اسلامی فلاحی ریاست کے تصور کا لبِ لباب یہ ہے کہ یہ مساوات (ہر سطح پر برابری)قائم کرتی ہے اور اس کے حکمران عام آدمی کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں اورہر شخص کی ان تک رسائی حاصل ہوتی ہے اور یہ اپنے عوام کے سامنے جوابدہ ہوتے ہیں۔

سوال: پاکستان کے قومی مقاصد کیا ہیں
پاکستان کے قومی مقاصد
پاکستان ایک آزاد، خودمختار اسلامی ملک ہے۔اس کے قومی مقاصد مندرجہ ذیل ہیں۔
(۱) اسلامی معاشرے کا قیام
اسلامی تعلیمات اور جمہوریت کے اصولوں کے مطابق ایک اسلامی معاشرہ کا قیام سب سے اہم قومی مقصد ہے۔قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ پاکستان کی تخلیقکا مقصد صرف زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ ایک ایسی تجربہ گاہ کا قیام تھا۔ جہاں اسلامی اصولوں کو بروئے کار لایا جاسکے۔اس لئے یہ ہر پاکستانی کا فرض ہے کہ وہ ایسی تمام کاوشوں اور کوششوں میں شریک ہوں جن کا مقصد ایسا ماحول پیدا کرنا ہو جس میں لوگ انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگیاں اسلامی اصولوں کے مطابق بسر کرسکیں۔
(۲) استحصال کے خلاف جدوجہد
مساوات، سماجی انصاف، باہمی عزت و احترام اور تعاون کے اصولوں پر مبنی ایک اسلامی معاشرے کا قیام ہی ہمارا بنیادی قومی مقصد ہے۔یہ اسی وقت ممکن ہے۔ جب ہرفردکو ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کے مساوی مواقع حاصل ہوں اور وہ جہالت، غربت اور استحصال کا شکار نہ ہو۔اسی لئے جہالت، ناخواندگی، غربت افلاس اور معاشی استحصال کے خلاف جدوجہدبھی ہمارا ایک قومی مقصد ہے۔
(۳) ریاست کی حفاظت
ملک کو درپیش اندرونی اور بیرونی خطرات سے محفوظ رکھنا بھی حکومت اور عوام کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔قومی تشخص اور آزادی کا تحفظ بھی ہمارا ایک اہم قومی مقصد ہے۔
) خود کفالت
خودکفالت ایک بہت وسیع المعنی اصطلاح ہے۔لیکن قومی مقاصد کے حوالے سے اس کے معنی یہ ہیں کہ پاکستان کو معاشی اور اقتصادی طور پر خود کفیل بنایا جائے۔اس کے لئے قومی سطح پر مسلسل کوششوں اور کاوشوں کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے محنت کی جائے، اپنے وسائل پر انحصار کیا جائے اور تعلیم اور سائنسی علوم کو فروغ دیا جائے اور ”پاکستانیت“ کا جذبہ و احساس پروان چڑھایا جائے تاکہ خود انحصاری کی منزل حاصل ہوسکے۔
(۵) مسلم ممالک کے ساتھ اتحاد و یکجہتی
یہ بھی ہمارا قومی مقصد ہے کہ اسلامی ممالک کے درمیان اتحاد و یکجہتی کو فروغ دیا جائے اور انہیں ایک پلیٹ فارم پر یکجا کیا جائے۔ہمیں اسلامی اُمّہ کی تنظیم (آرگنائزیشن آف اسلامک کنٹریز-او آئی سی) کے کردار کو زیادہ مضبوط بنانا ہے تاکہ مسلم اُمّہ کے مفادات سے متعلق معاملات پر یکسُو ہوکر عمل کیا جائے۔
) پُرامن کوششیں
بین الاقوامی اور علاقائی امن کا فروغ، غیر منصفانہ بین الاقوامی معاشی اصلاحات اور نسلی امتیاز کا خاتمہ بھی ہمارے قومی مقاصد میں شامل ہے۔
(۷) فلاحی ریاست کے قیام کے لئے جدوجہد
سب سے اہم مقصدپاکستان کو فلاحی ریاست بنانا ہے۔ہمارے وسائل محدود ہیں۔پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے میںسب سے بڑی رکاوٹ مدّبراور دور اندیش قیادت کی کمی ہے جس کی وجہ سے اس کے وسائل بہت غیر منظم ہیں۔اس کےلئے ہمیں شرح خواندگی میں اضافہ کرکے، سائنسی اور ٹیکنیکل تعلیم کوبڑہا کر اپنے وسائل کو فروغ دینا ہوگا۔پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کے لئے سماجی برائیوں اور بدعنوانیوں کا خاتمہ بھی ناگزیر ہے۔

سوال: خوراک میں خودکفالت کیوں ضروری ہے؟

سوال: خوراک میں خودکفالت کیوں ضروری ہے؟
خوراک میں خودکفالت
خوراک عوام کی بنیادی ضرورت ہے۔نا مناسب یا کم خوراک کا نتیجہ عوام کی خراب صحت کی صورت میں نکلتا ہے۔جب عوام صحت مند نہیں ہونگے تو ان کی کارکردگی بھی کم ہوجائے گی جس سے ملک کی تعمیر و ترقی و فروغ کا عمل سست پڑجاتا ہے۔بیرونی ممالک سے خوراک کی درآمد سے ترقی و فروغ کے دیگر شعبوں پر بُرا اثر پڑتا ہے۔ خاص طور سے صنعتی ترقی و فروغ پر کیونکہ غذائی اجناس کی درآمد پرکثیر زرِمبادلہ خرچ ہوجاتا ہے۔پاکستان کی معیشت زراعت پر انحصار کرتی ہے۔پاکستان کی آبادی کی اکثریت زراعت سے وابستہ ہے۔قومی آمدنی کا زیادہ بڑا حصہ زرعی پیداوار اور زراعت پر مبنی مصنوعات سے حاصل ہوتا ہے۔ چاول، کپاس اور گنّا (چینی) جیسی زرعی فصلیں زرِمبادلہ کمانے کا اہم ذریعہ ہیں۔صنعتوں کے لئے بھی زراعت بہت اہم ہے۔کپڑے کی صنعت، شکر سازی کی صنعت اور بناسپتی تیل کی صنعت جیسی بے شمار صنعتوں کا انحصار زرعی پیداوار پر ہے۔زرعی ترقی صرف خوراک و غذا کے لئے نہیں ہے بلکہ صنعتی ترقی و نشونما کے لئے بھی ضروری ہے۔ صنعتی مصنوعات بھی زراعت کے فروغ میں استعمال ہوتی ہیں۔ زرعی پیداوار بڑھانے سے ہم مندرجہ ذیل فوائد کے حامل ہوسکیں گے۔
(۱) قیمتی زرِمبادلہ بچا سکیں گے جو غذائی اجناس کی درآمد پر خرچ ہوتا ہے۔
(۲) مزید صنعتیں قائم کرسکیں گے، پیداوار بڑھا سکیں گے اور زرِمبادلہ کماسکیں گے۔
(۳) بیرونی قرضوں کو کم کرسکیں گے۔
(۴) عوام کی قوتِ خرید بڑھا سکیں گے اور معیارِ زندگی بہتر کرسکیں گے۔
(۵) تجارت اور کاروبار کو پھیلاسکیں گے۔
(۶) عوام کی روزگار کے مواقع مہیا کرسکیں گے اور غربت مٹا سکیں گے۔
خوراک میںخودکفیل بنانے میں حکومت کے مقاصد
حکومت زرعی شعبے کی ترقی و فروغ پر خصوصی توجہ دے رہی ہے۔اس کا مقصد یہ ہے کہ ملک کو خوراک کے معاملے میں خودکفیل بنایا جاسکے۔اس مقصد کے لئے حکومت نے مندرجہ ذیل اقدام اُٹھائے ہیں۔
(۱) ملک میں زرعی اصلاحات نافذ کی گئی ہیں۔جن کا مقصد یہ ہے کہ زمین کی ملکیت کو محدود کیا جائے اور زمین کی ملکیت کی ایک زیادہ سے زیادہ حد مقرر کی جائے اور چھوٹے کسانوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔
(۲) ترقیاتی منصوبوں میں زرعی شعبے کی ترقی اور فروغ کے لئے خطیر سرمایہ خرچ کرکے زراعت پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔
(۳) ڈیم کی تعمیر اور چند نئے علاقوں میں آبی نہروں کی تعمیر کے ذریعے وسائل کو وسعت دی گئی ہے۔
(۴) زرعی ترقیاتی بینک اور امدادِ باہمی کی انجمنیں قائم کی جارہی ہیں تاکہ کاشتکاروں کو قرضے دیے جاسکیں۔
(۵) کثیر تعداد میں زرعی ادارے قائم کیے گئے ہیں جو زرعی مسائل کے بارے میں مشورے دیتے ہیں جو زیادہ پیداوار کے لئے معیاری اور صحت مند بیج تجویز کرتے ہیں۔
(۶) حکومت کی جانب سے مصنوعی کھاد جراثیم کش ادویات، ٹریکٹر اور دیگر متعلقہ آلات کو خریدنے کے لئے بے شمار سہولتیں مہیا کی گئی ہیں۔ حکومتی کوششوں کے نتیجے میں پاکستان کئی زرعی پیداواروں میں تقریباًخودکفیل ہوگیا ہے۔ ان میں چاول، کپاس، گندم، چینی اور مصنوعی کھاد شامل ہیں۔اس طرح غذائی اجناس کی درآمد سے بچا ہوا زرِمبادلہ صنعتوں کے قیام میں خرچ ہوسکتا ہے اور وہ دن زیادہ دور نہیں ہے جب پاکستان خوراک کے معاملے میں خود کفیل ہوجائے گا۔

Twitter Delicious Facebook Digg Stumbleupon Favorites More